یہ ایک اہم نقطہ تھا جو اکثر خاندانوں میں مسئلہ جس پر مجھے لکھنا مناسب لگا۔ لیکن اس عنوان کو اکثر ہلکل پھلکا سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ کزن کا مطلب ہی نہیں جانتے میں ایک بار اپنے عزیز و اقارب کے رشتہ داروں کے پاس گیا! وہاں کزن کا ذکر چھڑا تو انہوں نے برا منایا پھر میں نے بتایا کہ بھئی یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے ہمارے دور پار کے بہن بھائیوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔۔۔ پھر کزن سسٹر اور کزن پر بحث ہوتی رہی کہ کزن سسٹر جو ہے چچازاد ہے اور کزن ماموں پھپھو خالہ زاد میں نے کہا بھئی نظریہ ہے ورنہ خالہ زاد اور دوسرے کزنز کو بھی بہن بھائی کہتے ہیں۔ پھر فرسٹ سکینڈ تھرڈ کزنز پر بات ہونے لگی۔ میں نے بتایا کہ یہ بھی نظریہ ہے حقیقت نہیں کزن کزن ہی ہوتا ہے اکثر ہم کزنز کے ساتھ فرینک ہونے لگ جائیں تو ہم پر شک کیا جاتا ہے اور چچازاد پر نہیں۔ بات محبت کی ہے تو محبت تو کچھ بھی نہیں دیکھتی اور کزنز کا رشتہ دوستانہ ہے یہ انجیل بتاتی ہے کہ یوحنا یسوع کا خالہ زاد تھا۔ محبت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے ہم روک نہیں سکتے جہاں ہونی ہوتی ہے ہو جاتی ہے! ایک مثال ہے یہودیوں کا ایک مذہبی گروہ ہے جو کہ بہن بھائی کی شادی بھی کر دیتا ہے تو کیا ہم ان سے بھی پرہیز کریں ؟ لیکن قانون قدرت ہے کہ ان رشتوں میں ویسی محبت نہیں ہوتی اگر ہو تو ہوس کہلاتی ہے سو مسیحیت میں کزنز میرج نہیں کزن فرینڈ شپ جائز ہے کزن میرج ہماری وہ غلطی ہے جس نے ہمیں نہ صرف شک بلکہ آپس میں دوریاں رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ اور یہ تو میڈیکل میں بھی غلط ہے اور خروج میں بھی لکھا ہے
یورپ میں ہر رشتے کا دن منایا جاتا ہے ہر جنس کا بھی چوبیس جولائی کو کزنز ڈے بھی منایا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ان کا اور ہی مطلب لیا جاتا ہے
” تو اپنے کسی قریبی رشتے دار کے پاس نہ جانا خواہ وہ تیرے باپ کی بیٹی ہو یا ماں کی کیونکہ وہ تیرا اپنا خون ہے ” خروج 17 باب ” اور لفظوں پر غور ضرور کریں لیکن انکی پکڑ سے گریز کریں کیونکہ وہ ہمارے بس میں نہیں اور بچوں کی چھیڑ چھاڑ نہ کیجئے کیونکہ اس سے ہم یہ بتاتے ہیں کہ مرد و عورت کا ایک ہی رشتہ ہے اور عشق انتہا ہے اس لیے صرف خدا سے ہے
” فی امان اللہ "