اسلام آباد(محمداویس)پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بجلی کے 300بڑے ڈیفالٹرز کی فہرستیں طلب کرلیں ، صارفین سے اووربلنگ کرنے والے جن حکام کے خلاف ایکشن ہواان کی فہرست کمیٹی نے طلب کرلی۔
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین کمیٹی جنید اکبر نے بغیر تیاری آنے پر وزارت خزانہ کے حکام پر شدید برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ مجھے مجبور نہ کریں کہ میٹنگ سے کسی کو نکالوں،جو یہاں آئے، تیاری کے ساتھ آیا کرے۔حکومتی اتحادی خالد حسین مگسی نے کہاکہ بلوچستان میں شاہراؤں پر بی ایل اے والے گھو م رہے ہیں وزیر سے بھی ہتھیارلے کر چھوڑاگیاہے وہاں ریکوری ناممکن ہے۔پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔اجلاس میںبورڈ آف انویسٹمنٹ سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیاگیا۔
آڈٹ حکام نے بتایاکہ مالی سال2021-22 کے دوران5.5 ملین کی مختلف سروسز بغیر کمپٹیشن حاصل کی گئیں جو خلاف ضابطہ ہیں،اسٹیبلشمنٹ آف پی ایم یو آن سی پیک آئی سی ڈی پی انتظامیہ نے اخراجات کئے، چیئرمین کمیٹی نے سوال کیاکہ کیا فنانس پیپرا رولز معطل کرسکتا ہے؟ تین چار سال آپ نے کیا کیا؟حکام وزارت خزانہ نے کہاکہ یہ معاملہ ہمیں ریفر کیا جائے، جس پرچیئرمین پی اے سی وزارت خزانہ حکام پر برہم ہوگئے اور کہاکہ آپ یہاں چائے پینے آئی تھیں؟ آپ کو پتہ تھا کہ یہ آڈٹ پیرا آنا تھا،آپ کی تیاری نہیں تھی تو یہاں بیٹھی کیوں تھیں،مجھے مجبور نہ کریں کہ میٹنگ سے کسی کو نکالوں،جو یہاں آئے، تیاری کے ساتھ آیا کرے،کمیٹی نے معاملہ حل کرنے کے لئے 15 دن کا وقت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ڈی اے سی میں ذمہ داری کا تعین کرکے کمیٹی کو بتایا جائے۔
اجلاس میں ہوٹل سروسز بغیر کمپٹیشن کے ہائیر کرنے کا معاملہ آیاجس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ آئندہ پری کوالیفیکیشن بھی کرائی جائے اور کمپٹیشن بھی اور معاملہ نمٹا دیا۔پی اے سی اجلاس میں پاور ڈویژن کی گرانٹس کا جائزہ لیاگیا۔آڈٹ حکام نے بتایاکہ 2.7 بلین کے فنڈز لیپس ہوئے جو گرانٹ کا 13.7 فیصد بنتا ہے، شاہدہ اختر علی نے کہاکہ سپلیمنٹری گرانٹ اوریجنل گرانٹ سے زیادہ ہے،چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ایک طرف پیسے نہیں ہوتے دوسری طرف اربوں روپے سرینڈر ہوتے ہیں، سیکرٹری پاور نے کہاکہ یہ ڈویژن کی غلطی ہے۔ثنا اللہ خان مستی خیل نے کہاکہ دھابیجی ملک کا بہت بڑا منصوبہ ہے، فوری طور پر ذمہ داری کا تعین کیا جائے، وقت پر منصوبے مکمل نہیں ہورہے تو کون ذمہ دار ہے،سسٹم فیل ہو چکا ہے، ڈلیور نہیں کر رہا، ہمارا دل دکھتا ہے، ہمیں رونا آتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ نیلم جہلم کا منصوبہ مکمل ہوا لیکن رائٹ آف وے کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔
کمیٹی میں انکشاف ہواکہ 9 بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ڈیفالٹرز سے سینکڑوں ارب کی ریکوری نہ کراسکیں، کمیٹی میں ڈیفالٹرز سے 877 ارب کی ریکوری نہ کرانے سے متعلق آڈٹ اعتراض زیر غور آیا۔ سیکرٹری پاور نے کہاکہ 162 ارب کے ریکوری کے ڈاکیومنٹ جمع کرا دیئے ہیں،کمیٹی میں کیسکو میں ڈیفالٹرز سے 603 ارب روپے وصول نہ ہونے کا انکشاف ہوا۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ اس میں کیسکو کی بڑی رقم ہے، حکام نے بتایا کہ کیسکو میں 27 ہزار ٹیوب ویل ہیں، آج تک انہوں نے پیسے نہیں دیئے،سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ ٹاپ 300 رننگ ڈیفالٹرز کی لسٹ فراہم کریں۔خالد حسین مگسی نے کہاکہ بلوچستان میں روڈ پر بی ایل اے والے گھوم رہے ہیں، ریکوری ناممکن ہے، منسٹر کے ہتھیار لے کر اس کو چھوڑ دیا گیا، کمیٹی نے ٹاپ 300 ڈیفالٹرز کی لسٹ طلب کرلی ۔
چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ایک کھمبے کے چھ ہزار چارج کئے جاتے ہیں، خیبرپختونخوا میں یہ کھمبے نہیں لگا سکتے، ہم خود لگاتے ہیں، اس کا بھی آڈٹ کر لیں کہ پری کوالیفیکیشن ہوتی ہے یا نہیں،سیکرٹری پاور ڈویزن نے بتایاکہ بل پر ٹیکس کو کم کرنے کے لئے کام ہو رہا ہے،حیسکو، سیپکو اور پیسکو کی نجکاری کے لئے لکھ دیا ہے، ہم ریکوری میں بہتری دکھائیں گے،چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ہر مہینے ہمیں بتایا جائے کہ ریکوری کتنی ہوئی ہے،یہ بھی بتایا جائے کہ کتنے افسران کے خلاف ایکشن لیا۔
ثنا اللہ خان مستی خیل نے کہاکہ25 روپے پی ٹی وی کی فیس لیتے ہیں، پی ٹی وی دیکھتا ہی کوئی نہیں ہے۔501 ارب کے نادہندگان سے الیکٹریکل ایکوئپمنٹ نہ ہٹانے اور ریکوری نہ کرنے سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیاگیا۔جنید انوار چوہدری نے کہاکہ 118 خط ہم نے ان کو لکھے ہیں، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس پر بھی نوٹس لیں کہ 118 خط لکھ کر بھی یہ چیزیں ہو رہی ہیں، سید حسین طارق نے کہاکہ یہ اپنے آپ کو کتنی فری بجلی دیتے ہیں؟جنید اکبر خان نے کہاکہ مفت بجلی یہ صرف خود نہیں لیتے، رشتہ داروں کو بھی دیتے ہیں، جو ریٹائر ہوں وہ بھی مفت بجلی لیتے ہیں، سیکرٹری توانائی نے کہاکہ مفت یونٹس حکومت نے ختم کر دیئے ہیں،چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ ڈسکوز کے اہلکار چوری کریں تو ان کو کون پکڑتا ہے؟ سیکرٹری پاور نے بتایاکہ ڈسکوز نے ایک سال میں 590 ارب کے نقصانات کئے ہیں۔اجلاس میں غیر مجاز طور پر اضافی لوڈ استعمال کرنے والے صارفین کو فیور دینے سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیاگیا۔آڈٹ حکام نے بتایاکہ 7689 صارفین مقررہ لوڈ سے اضافی لوڈ کا استعمال کر رہے تھے جس سے کمپنیوں پر اضافی بوجھ پڑا، کمیٹی نے معاملے پر انکوائری کرنے کی ہدایت کردی۔پانچ ڈسکوز میں غبن کی وجہ سے1.5 ارب روپے کے نقصان سے متعلق آڈٹ اعتراض زیر بحث آیا۔
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ 5 کیسز، چھ انکوائریاں رجسٹرڈ ہوئی تھیں، حیدر آباد سرکل میں چار انکوائریاں اور ایک کیس ہے،16 ملین کی ریکوری ہو چکی ہے، 9 ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں، ان تمام کیسز میں 33 لوگ گرفتار ہوئے ہیں، چیئرمین کمیٹی نے اب تک کی ریکوری کی آڈٹ سے تصدیق کرانے کی ہدایت کردی۔کمیٹی میں اووربلنگ کے 21 ارب سے زائد روپے صارفین کو واپس ری فنڈ کئے جانے سے متعلق معاملہ زیر بحث آیا۔آڈٹ حکام نے بتایاکہ میٹر ریڈنگ عملے کی غفلت عیاں ہوتی ہے لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی،سیکرٹری پاور نے بتایاکہ لوگوں کو اووربلنگ کی گئی بعد میں پیسے واپس کئے گئے،چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ جن کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے ان کی فہرست کمیٹی کو فراہم کریں، حنا ربانی کھر نے کہاکہ پاور سیکٹر کے ہاتھوں معیشت بھی بیٹھ گئی، گھر بھی بیٹھ گئے ہیں۔
کراچی کے صارفین کے لیے بجلی سستی ہونے کا امکان
وزارت داخلہ کو ملی ضمنی گرانٹ منظوری کے بغیر دی گئی
سندھ حکومت کی جنوبی کوریا کو صنعتیں لگانے کی پیشکش
مولانا فضل الرحمان کا اپوزیشن الائنس میں باضابطہ شمولیت سے انکار
بلوچستان کے طلبا کیلیے یو اے ای کا اسکالرشپ پروگرام کااعلان