نئی دہلی (باغی ٹی وی مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس رانا کو عہدے سے ہٹا کر انڈمان و نکوبار کمانڈ کے کمانڈر ان چیف کے طور پر بھیج دیا گیا ہے۔ بھارتی فوج کی تاریخ میں اس سطح کی برطرفی اور تبادلہ ایک غیر معمولی قدم سمجھا جا رہا ہے، جس نے سیکیورٹی اداروں کے اندرونی انتشار اور خفیہ نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ‘‘ (را) کی وہ خفیہ دستاویزات لیک ہو گئیں جن میں پہلگام حملے سے متعلق بھارتی ریاستی اداروں کے ایک مبینہ جعلی فلیگ آپریشن کی تفصیلات موجود تھیں۔ اس منصوبہ بند حملے کا مقصد پاکستان پر جھوٹے الزامات عائد کر کے نہ صرف داخلی سیاسی مفادات حاصل کرنا تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش بھی تھی۔ ان انکشافات نے بھارت کی انٹیلی جنس ساکھ کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

ذرائع کے مطابق، ان خفیہ فائلوں کا اخراج براہ راست لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس رانا کے دفتر سے ہوا، جو اس وقت ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ تھے۔ فائلوں میں موجود تفصیلات سے انکشاف ہوا کہ پہلگام حملہ بھارتی ایجنسیوں کا منصوبہ تھا جس میں بھارتی افواج، را، اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی اعلیٰ سطحی شرکت شامل تھی۔ ان دستاویزات میں واضح شواہد موجود ہیں کہ آپریشن جنرل رانا کی براہ راست نگرانی میں انجام دیا گیا۔

یہ دستاویزات ’’دی ریزسٹنس فرنٹ‘‘ (TRF) نامی کشمیری مزاحمتی گروپ نے حاصل کیں اور انہیں عالمی میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس اقدام نے نہ صرف بھارتی انٹیلی جنس کے آپریشنل نظام میں پائے جانے والے خلا کو نمایاں کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ’’را‘‘ جیسی خفیہ ایجنسی کی جانب سے اس درجے کی حساس معلومات کا افشا ہونا اس ادارے کی ناقص سیکورٹی اور داخلی نگرانی کی مکمل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس واقعے کے بعد بھارتی حکومت نے فوری کارروائی کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس رانا کو ان کے عہدے سے برطرف کیا اور انہیں انڈمان و نکوبار جزائر میں کمانڈر ان چیف تعینات کیا۔ فوجی حلقوں میں یہ علاقہ "کالا پانی” کے طور پر جانا جاتا ہے، جو کہ تاریخی طور پر جلاوطنی، تنہائی، بیماریوں، اور بنیادی سہولیات کے فقدان کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی فوج کے اندر یہ پوسٹنگ ایک طرح کی سزا کے طور پر مانی جاتی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل رانا کا یہ تبادلہ غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے قبل بھارتی فوج میں اس سطح پر کسی سینئر افسر کو اس انداز میں ہٹایا جانا بہت کم دیکھا گیا ہے۔ فوجی تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بھارتی فوج کے اندر مورال پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ایک سینئر افسر کی اس قدر عوامی رسوائی اور سزا دیگر افسران میں بے چینی اور عدم تحفظ کے احساس کو جنم دے سکتی ہے، جس کا بالواسطہ اثر فوج کے نظم و ضبط اور آپریشنل کارکردگی پر بھی پڑ سکتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی اس انکشاف نے ہلچل مچا دی ہے۔ عالمی میڈیا اور سیکیورٹی تجزیہ کار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیاں غیر پیشہ ورانہ طریقوں اور سیاسی مقاصد کے لیے خطرناک منصوبہ بندی میں ملوث رہی ہیں۔ پاکستان نے ان لیکس کو بھارتی پروپیگنڈہ بے نقاب کرنے کا موقع قرار دیا ہے اور عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات کرائیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھارت نے جھوٹے الزامات کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہو۔

دوسری طرف، بھارتی حکومت نے تاحال اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ یہ خاموشی عالمی سطح پر بھارت کی پوزیشن کو مزید کمزور کر رہی ہے اور بھارتی ریاستی اداروں کی شفافیت اور ساکھ پر بھی سوالات کھڑے کر رہی ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اس معاملے میں کھلی تحقیقات نہ کرا سکا تو مستقبل میں اسے مزید سفارتی تنہائی اور بداعتمادی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ واقعہ نہ صرف جنرل رانا کے کیریئر کے لیے ایک دھچکا ہے بلکہ یہ بھارتی انٹیلی جنس اور فوجی ڈھانچے کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی بن چکا ہے۔ خفیہ معلومات کی اس سطح پر لیک ہونا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران بھارت کی اندرونی سلامتی، خارجہ پالیسی، اور بین الاقوامی شراکت داریوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ عالمی ساکھ بحال کرنے کے لیے بھارت کو نہ صرف فوری تحقیقات کرنا ہوں گی بلکہ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اصلاحات بھی لانا ہوں گی تاکہ آئندہ ایسی سنگین غفلت دوبارہ نہ ہو۔

پہلگام آپریشن کی ناکامی کے بعد بھارتی عسکری قیادت میں برطرفیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے قبل بھارتی فضائیہ کے ڈپٹی ایئر مارشل سوجیت پوشپاکر دھرکر کو برطرف کیا گیا، جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ایم وی سچندر کمار کو ناردرن کمانڈ کے عہدے سے ہٹا کر پراتک شرما کو تعینات کیا گیا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، جنرل رانا کا تبادلہ اندمان و نکوبار جیسے مشکل اسٹیشن میں کرنا اور دیگر اعلیٰ عسکری قیادت کی برطرفی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ یہ تبادلے بھارتی عسکری قیادت اور سپاہیوں پر ذہنی دباؤ کا باعث بن رہے ہیں، جو مستقبل میں ان کی کارکردگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ آپریشن کی ناکامی اور لیک نے بھارتی عسکری حکمت عملی اور انٹیلی جنس اداروں کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا، جو فوج کے اندرونی استحکام اور اعتماد پر سوالات اٹھا رہا ہے۔

اس بحران کے بعد بھارت کو عالمی سطح پر سفارتی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اگر بھارت اس معاملے کی غیر جانبدار تحقیقات نہیں کرتا تو اس کے بین الاقوامی تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔

Shares: