مزید دیکھیں

مقبول

کرم میں فریقین کے تمام بنکرز گرا دیئے گئے، آئی جی کے پی کے

پشاور: آئی جی خیبرپختونخوا کا کہنا ہےکہ کرم میں...

پاکستان کرپٹو کونسل اور ورلڈ لبرٹی فنانشل کے درمیان معاہدے پر دستخط

پاکستان کرپٹو کونسل اور ورلڈ لبرٹی فنانشل کے درمیان...

وزیر خزانہ کی واشنگٹن میں فلپ مورس انٹرنیشنل کے نائب صدرسے ملاقات

وفاقی وزیرِ خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے...

پہلگام کشیدگی،کراچی میں شادی کرنیوالےخاتون کو بھارت نے پاکستان آنے سے روک دیا

لاہور(خالدمحمودخالد) پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کی...

پہلگام: بھارتی اہداف، ماضی اور مستقبل.تحریر:ڈاکٹر عتیق الرحمان

پہلگام: بھارتی اہداف، ماضی اور مستقبل
ایک سیر حاصل تجزیہ: ڈاکٹر عتیق الرحمان
تجزیہ کار کا تعارف
ڈاکٹر عتیق الرحمان قائد اعظم یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات (انٹرنیشنل ریلیشنز) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا کی جیو پولیٹکس، بھارت پاکستان تعلقات اور خطے کی سیکیورٹی ڈائنامکس پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے تجزیے علاقائی تنازعات، واٹر سیکیورٹی اور بھارتی خارجہ پالیسی کے حوالے سے گہرے اور بصیرت افروز ہیں۔

پہلگام واقعہ کیا ہے؟

مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں منگل 22 اپریل کی دوپہر کو دہشت گردی کے ایک واقعے میں کم از کم 26 سیاح ہلاک ہوئے۔ مارے جانے والے فوجی یا سیکیورٹی اہلکار نہیں بلکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خوبصورت وادی پہلگام میں چھٹیاں گزارنے کے لیے آنے والے سیاح تھے۔ بھارت ابھی تک مکمل شواہد اکٹھے نہیں کر پایا اور نہ ہی واقعے کی انکوائری کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ لیکن واقعے کے فوراً بعد پاکستان پر الزام تراشی شروع ہو گئی۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق پہلگام حملہ دوپہر 3 بجے ہوا اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے 3:05 بجے پاکستان پر الزام لگا دیا۔ حملے کے 30 منٹ بعد بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے #PakistanTerrorError ہیش ٹیگ بنایا۔ واقعے کے 30 سے 60 منٹ کے اندر بی جے پی لیڈرز جے پی نڈا اور امیت شاہ نے ٹویٹس کر دیے۔

واقعے کے 1 سے 3 گھنٹوں بعد جعلی انٹیلی جنس رپورٹس لیک کی گئیں جنہیں آر ایس ایس کے ٹرول اکاؤنٹس نے بڑے پیمانے پر ری ٹویٹ کیا۔ حیران کن طور پر پہلگام واقعے کے پہلے 15 منٹ میں بی جے پی کے حامیوں کی جانب سے 500 بھارتی اکاؤنٹس سے ایک جیسے ٹویٹس کیے گئے اور 30 منٹ میں #PakistanTerrorError ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، جس میں جعلی کشمیری ناموں سے ٹویٹس کیے گئے۔

یاد رہے کہ پہلگام لائن آف کنٹرول سے تقریباً 397 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوج موجود ہے۔

انڈس واٹر ٹریٹی
پہلگام واقعے کے کچھ ہی دیر بعد مودی سرکار نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ ختم کر دیا، جس سے پہلگام واقعہ مزید سنگین صورت حال اختیار کر گیا۔ بھارتی حکومت کا سندھ طاس معاہدے کو فوری ختم کرنے کا اعلان اس واقعے کو مشکوک بناتا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر راجہ قیصر نے 27 اپریل کو انڈیپنڈنٹ اردو کے کالم میں لکھا:

"6 نومبر 2019 کو میں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں پیش گوئی کی تھی کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مودی حکومت سندھ طاس معاہدے کو معطل یا ختم کرنے کا غیر متوقع اور سنگین اقدام اٹھا سکتی ہے، جس کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ میں نے اس وقت خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو اگلے پانچ سال میں اس امکان کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ انڈیا کسی داخلی سیکیورٹی واقعے کو بہانہ بنا کر یہ قدم اٹھا سکتا ہے۔ اس پیش گوئی کی بنیاد انڈیا میں ہندوتوا کی نظریاتی تحریک کی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت تھی جو موجودہ پالیسیوں کو چلا رہی ہے اور جس کے رکنے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔”

کیا بھارت دریائے سندھ کا پانی روک پائے گا؟
بھارت تکنیکی اعتبار سے بھی دریائے سندھ کا پانی روکنے سے قاصر ہے۔ آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ
"اپریل سے ستمبر کے دوران دریاؤں میں پانی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اسے روکا نہیں جا سکتا۔ بھارت کی طرف سے پانی روکنے کی کوشش کی گئی تو مقبوضہ کشمیر ڈوب جائے گا۔ سندھ کا پانی ہمالیہ ریجن سے انتہائی اونچائی سے نیچے آتا ہے، جسے روکا نہیں جا سکتا۔ دریائے سندھ کا 95% پانی گلگت بلتستان کے دریائی سلسلے اور دریائے کابل سے آتا ہے۔ بگلیار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم چلتے پانی سے بجلی بناتے ہیں، پانی نہیں روک سکتے۔ کراکرم ریجن ٹیکٹونک پلیٹس پر ہے، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہو سکتی۔ بھارت کی طرف سے پانی روکنے کی کوشش پر عالمی سطح پر شدید ردعمل آئے گا۔”

انہوں نے مزید کہاکہ بھارت کی ٹیل پر اگر پاکستان ہے تو بھارت چین کی ٹیل پر ہے۔ جو کرے گا، بھگتے گا۔ بھارت ایڈونچر کرے گا تو چین براہم پترا دریا کا پانی روک سکتا ہے، جو سندھ سے بڑا دریا ہے۔ بھارت کے لیے دریائے سندھ کا پانی روکنا قابل عمل ہی نہیں۔”

بھارت کی بڑی گیم
بھارت کی اپنے ملک میں دہشت گردی کروا کر پاکستان پر الزام لگانے اور پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کی چالوں کو سمجھنے کے لیے بھارت کی اندرونی سیاست اور خارجہ پالیسی کے اہداف کو سمجھنا ضروری ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کے چار بڑے مقاصد ہیں:
1.معاشی ترقی اور ملٹری طاقت کا حصول (یہ ہدف شاید امریکہ کو پسند نہ ہو)،2.جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کے ذریعے چین کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ،3.انفارمیشن وار میں برتری،4.بحر ہند پر تسلط۔
اپنے معاشی ہدف تک پہنچنے کے لیے بھارت نے فارورڈ ڈیفنس سٹریٹجی اپنائی ہے کہ اپنے ملک سے باہر دشمن ریاستوں کو الجھاؤ۔ پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہے۔ پچھلے ایک سال میں دہشت گردی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں 45% اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ افغانستان میں دہشت گرد ٹھکانوں کی بھارتی پشت پناہی ہے۔

بحر ہند پر بھارت اور امریکہ کیوں تسلط چاہتے ہیں؟
بحر ہند وسائل سے مالا مال ہے۔ سیاسی طور پر، یہ تیسرا بڑا سمندر اسٹریٹجک مقابلے کا ایک اہم تھیٹر بن چکا ہے کیونکہ موجودہ دور کی 70% تجارت بحر ہند سے ہوتی ہے۔ یہ عالمی تجارت کی شریان کے طور پر مرکزی تجارتی راستے فراہم کرتا ہے۔ اس میں دنیا کے چار بڑے اسٹریٹجک چوک پوائنٹس ہیں آبنائے ہرمز، باب المندب، ہارن آف افریقہ اور آبنائے ملاکا کے ذریعے سوئز کینال۔ یہ راستے خام ہائیڈرو کاربن کی تجارت کے لیے اہم ہیں۔ بحر ہند اپنے کنارے پر 47 ممالک اور دنیا کی ایک تہائی آبادی پر مشتمل ہے جو اب جیو پولیٹیکل ٹگ آف وار کا میدان بن چکا ہے۔ دنیا کے معلوم تیل کے ذخائر کا 65% اور گیس کا 35% بحر ہند سے وابستہ ہے جو معیشت کے ساتھ ساتھ فوجی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

بھارتی پیراڈاکس
دنیا کی تیسری بڑی معیشت، سب سے زیادہ جنگی ہتھیار اور اسلحہ خریدنے والی جمہوریت، لیکن جنوبی ایشیا میں بھی تھانیدار نہیں بن پا رہی اور کوئی بڑا کردار ادا کرنے سے محروم ہے۔ شاید یہی بھارت کی بے چینی کی بڑی وجہ ہے۔ ایک طرف چین، دوسری طرف پاکستان اور اب بنگلہ دیش بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ بھارت تلملائے نہ تو کیا کرے؟

بھارت کے مستقبل کی ڈور مودی، امیت شاہ اور راج ناتھ کے ہاتھ میں ہے۔ منموہن سنگھ کی محنت سے بنائی گئی جی ڈی پی کو مودی سرکار تباہ کرنے پر تلی ہے۔ بی جے پی حکومت کے تین بڑے ہینڈیکیپ ہیں،ہندو انتہا پسندی، جو تیس کروڑ مسلمانوں، دلیت، اور شودروں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔انتہا پسندی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت، جو مودی سرکار کو پاکستان کے ساتھ لکیر میٹی کھیلنے پر مجبور کرتی ہے، ورنہ کانگریس میدان مار لے گی۔ہندو انتہا پسندی مودی سرکار کی طاقت بھی ہے اور اس کے گلے کی ہڈی بھی۔

بھارت پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، یہ میں نہیں، سیکیورٹی ماہرین کہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کبڈی کی طرح ہاتھ لگا کر بھاگ سکتا ہے۔ بالی ووڈ اور آئی پی ایل بھارتی عوام کی تفریح بھی ہیں اور پاکستان کے خلاف غصے کو ہوا دینے کے ہتھیار بھی۔ بھارت نے آئی ٹی سروسز کے علاوہ دنیا کو فیک نیوز اور کرکٹ کو شدید نقصان پہنچانے کا تحفہ دیا ہے۔ بھارت نے کرکٹ کو محدود، انڈین سینٹرک اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔

بھارت یہ سب شرارتیں صرف اپنی عوام کو ورغلانے کے لیے کرتا ہے۔ تقریباً ایک ارب ہندو ووٹوں کو کہیں تو مصروف رکھنا ہے۔ بی جے پی کی سوچ بیک وقت ترقی پسندانہ بھی ہے اور رجعت پسندانہ بھی۔ دنیا کی تیسری بڑی معیشت اور سب سے بڑی جمہوریت اپنے آپ کو گلوبل پاور دیکھنا چاہتی ہے، لیکن اپنے ملک میں مسلمانوں، کشمیریوں اور ہندو دلیت ذات کو کچلنا بھی چاہتی ہے۔ اپنے ہمسایہ ملک پاکستان، جو ایٹمی طاقت ہے، اسے دبانا چاہتی ہے۔ چین سے بھی ٹکر لینا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ کے چنگل سے نکل کر آزاد خارجہ پالیسی بنانا چاہتا ہے لیکن امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ بھی انتہا تک لے جانا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات چھپا کر مشرق وسطیٰ اور ایران سے پینگیں بڑھانا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کو ہوا دیتا ہے، سپورٹ کرتا ہے، بڑھاوا دیتا ہے اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر بھی بننا چاہتا ہے۔ یہ ہے بھارت کا پیراڈاکس۔

رجعت پسندانہ اپروچ بھارت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔ ریاست کے استحکام کے لیے فوکسڈ اپروچ چاہیے۔ تھانیداری والی پالیسی ریاستی معاملات میں نہیں چلتی۔ اگر بھارت کی معاشی اور ملٹری طاقت اسے پاکستان کے خلاف جنگ لڑنے کی تحریک دے رہی ہے تو بھارت کو یہ بھی علم ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ میں سب سے پہلے جی ڈی پی اڑے گی، پھر باقی چیزوں کی باری آئے گی۔ پاکستان کے ساتھ جنگ دراصل تباہی کا اعلان ہے۔ بھارت کی جی ڈی پی اور آئی ٹی سروسز گئیں تو پیچھے صرف آر ایس ایس یا اڈانی گروپ بچتا ہے۔ بھارت کو اپنی معیشت کو بچا کر رکھنا چاہیے۔

بھارت کو اس وقت پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ 600 ملین لوگ انتہائی پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ بھارت کو دنیا کے کل آبی وسائل کا 18% چاہیے، جبکہ اس کے پاس صرف 4% آبی وسائل ہیں۔ بھارتی سماجی رویے اور حکمرانوں کی تاریخی ہٹ دھرمی بھارت کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ ہے۔ اگر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بار بار ایک ہی جگہ اٹک رہی ہے، تو یقیناً کوئی گڑبڑ ہے۔ بھارت اندرونی ڈرامے کر کے جنگ کا ماحول بناتا ہے، دنیا کی توجہ حاصل کرتا ہے اور پھر پروپیگنڈے کو اپنے ڈسکورس کا حصہ بناتا ہے۔

بھارت کا ڈسکورس اس کے دور رس قومی اہداف سے مماثلت نہیں رکھتا۔ بھارت کا ڈسکورس فیک نیوز، ہندو انتہا پسندی کی ترویج، فالس فلیگ آپریشنز اور انڈین کرونیکلز سے جڑا ہے جبکہ قومی اہداف معیشت کی بہتری، عالمی تجارتی روابط میں بہتری، آزاد خارجہ پالیسی اور خطے میں حاکمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عمل اور کردار کا یہ تضاد بھارت کا المیہ ہے۔

بھارت: دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدار
بھارت ہر سال تقریباً 100 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدتا ہے جو اس کے 70 ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ سے الگ ہے۔ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کے فوجی اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کی وجوہات میں حکمران جماعت کی انتہا پسند سوچ، جنوبی ایشیا میں اجارہ داری کے عزائم، کشمیر پر قابض پالیسی اور پاکستان دشمنی شامل ہیں۔ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں مذہبی انتہا پسندی میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ بھارت کی داخلہ، خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی پر ہندو انتہا پسند قابض ہو گئے، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کی سالمیت کو بھی خطرہ ہے۔

بھارت کے امریکہ اور فرانس سے اچھے مراسم ہیں کیونکہ بھارت ان دونوں ممالک سے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بھارت کی آئی ٹی سروسز کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی امریکہ ہے۔ ظاہر ہے، اسلحہ بیچتے ہیں تو کچھ نہ کچھ خریدنا بھی پڑتا ہے۔

بھارت کا کمزور حساب کتاب
بھارت کا گیم تھیوری میں حساب کتاب کمزور ہے۔ اس کھیل میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کیا چال چلی جائے کہ نقصان کم سے کم ہو۔ کیا دو نیوکلیئر ہمسایہ ممالک جنگ لڑ سکتے ہیں؟ بھارت کی نان سٹیٹ ایکٹرز کی پشت پناہی نے خطے کی سیکیورٹی کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی پرورش کرتا ہے۔ یہ تضادات کی بھرمار ہے۔

امریکہ کا ردعمل اور چین کا کردار
صدر ٹرمپ کے پہلگام واقعے پر دیے گئے بیان کا بغور جائزہ لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ٹکراؤ کو سیریس نہ لیا جائے۔ اگر بھارت کی الزام تراشیوں میں کوئی دم ہوتا تو دنیا کی اکلوتی سپر پاور امریکہ کو کچھ فکر تو ہوتی، خاص طور پر جب بھارت امریکہ کا اتحادی اور خطے میں چین کے خلاف اہم پارٹنر ہے۔

جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے کردار کو مت بھولیں۔ چین اس خطے کو میدان جنگ نہیں بننے دے گا۔ چین پاکستان کا اتحادی اور یوریشین ریجن میں امن کا خواہش مند ہے۔ بھارت اب یکطرفہ فیصلوں سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے خواب بھول جائے۔ عالمی سیاست کے تمام جز معیشت، مصنوعی ذہانت، صحت، تعلیم، کرنسی، تجارت، ریاستیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں، نان سٹیٹ ایکٹرز، اور عالمی ادارے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ بھارت-پاکستان کی جنگ پوری دنیا کی تباہی کا عندیہ ہو گی۔ کیا دنیا اس کے لیے تیار ہے؟

بھارتی ڈسکورس
جنگیں لڑنے کے تبدیل ہوتے طریقہ کار میں انفارمیشن کی بالادستی بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کا ڈسکورس قابل توجہ ہے۔ بھارتی سینما 2014 کے بعد نئی کروٹ لے چکا ہے۔ محبت اور رومانس کی جگہ انتہا پسندی اور پروپیگنڈے نے لے لی ہے۔

ہر ریاست اپنی کہانی اپنے ملک کے گرد بُنتی ہے، لیکن بھارت وہ واحد ملک ہے جس نے اپنی کہانی پاکستان کے گرد جھوٹ سے بنائی ہے۔ دنیا میں ہیرو اور ولن کی کہانی بہت بکتی ہے۔ بھارت اپنے آپ کو ہیرو اور پاکستان کو خطرہ پیش کرتا ہے۔ یہ سیاسی کہانی اب بھارتی فلم انڈسٹری کی ہٹ سٹوری بن چکی ہے۔

پاکستان کا سینما اور انٹرٹینمنٹ ٹی وی کمزور ہے۔ ہم اپنی کہانی نہیں بیچ پائے، جس کا فائدہ بھارت نے اٹھایا اور ثقافتی و عالمی سیاسی محاذ پر پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ اب بھارت OTT پلیٹ فارمز استعمال کر رہا ہے۔بھارت نے ابھینندن کی سبکی کے زخم پر مرہم رکھنے کے لیے فلم "Fighter” بنائی۔ ایسی بے ربط کہانی کا حقیقت سے دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
2010 سے اب تک لگ بھگ 103 بھارتی فلمیں اور ان گنت ویب سیریز پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کے لیے بنائی جا چکی ہیں۔ بھارت نے 2005 سے پاکستان کے خلاف انڈین کرونیکلز آپریشن جاری کر رکھا ہے، جس کا مقصد پاکستان مخالف ایجنڈا ہے۔ یہی کہانی بھارت پوری دنیا کو سنا رہا ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایک طالب علم نے 2018 میں بھارتی فلم انڈسٹری پر پی ایچ ڈی مقالہ لکھا، جس میں چار فلموں”26/11″، "بیبی”، "ویلکم ٹو کراچی” اور "فینٹم”کا تجزیہ کیا۔ طالب علم نے تحقیق کے مروجہ طریقوں سے ثابت کیا کہ بھارتی فلم انڈسٹری پاکستانی عوام، ریاست اور اداروں کو دہشت گردوں کا سہولت کار پیش کرتی ہے۔ ان کی فلموں کے ڈائیلاگ اور کہانی تحقیق سے نہیں گزرتے بلکہ سیدھے باکس آفس پر جاتی ہیں اور ہٹ کرائی جاتی ہیں۔ عوام کو ورغلانے کے لیے سٹارڈم کا سہارا لیا جاتا ہے۔ہالی ووڈ نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کی افغانستان پر بننے والی درجنوں فلمیں اور ویب سیریز پاکستان کو ایک خاص رخ سے دکھاتی ہیں،پہلگام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

انڈین کرونیکلز کے بغیر بھارتی پروپیگنڈے کی اصل کہانی ادھوری ہے۔ انڈین کرونیکلز دراصل ڈیجیٹل میڈیا میں جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کا بانی پروگرام ہے۔ یورپی یونین کی ڈس انفارمیشن لیب نے 2020 میں اس پروپیگنڈا نیٹ ورک کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ 119 ممالک میں 750 جعلی میڈیا نیٹ ورک، 550 ویب سائٹس اور 10 این جی اوز سے شروع ہونے والا یہ نیٹ ورک اب بہت وسیع ہو چکا ہے۔

پاکستان اور پاکستانی فوج کی برتری
ہر قوم کا ایک کردار ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم کا خاصہ یہ ہے کہ وہ بحران میں یکجان ہو جاتی ہے، خاص طور پر بھارت کی طرف سے کسی خطرے کے وقت۔ پاکستانی قوم پورے جوش و جذبے سے متحد ہوتی ہے۔میدان حرب سے شناسائی سپاہی کے خوف کو ختم کر دیتی ہے۔ اندازہ کریں کہ جو فوج پچھلے بیس سال سے حالت جنگ میں ہے، وہ کس حد تک بے خوف ہو چکی ہو گی۔
جنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دھکیلا، انہوں نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ یہ حرکت پاک فوج کو ناقابل تسخیر بنا دے گی۔ ہمارے افسران اور جوان بیس سالہ جنگ سے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے لڑاکا سپاہی بن کر نکلے ہیں۔ یہ بے خوف، تربیت یافتہ اور انتہائی پیشہ ور فوج آہنی اعصاب کی مالک ہے۔

ایک تاریخی واقعہ سناتا ہوں کہ سپاہی میدان حرب میں کیسے بے خوف بنتا ہے:
جنرل جارج ایس پیٹن، امریکہ کے معزز فوجی خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد امریکی انقلاب اور دیگر اہم جنگوں میں داد شجاعت دے چکے تھے۔ ان کی بہادری کی داستانوں سے متاثر ہو کر پیٹن نے فوج میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پیٹن ایک حساس شخص تھے اور انہیں خوف تھا کہ جنگ میں بزدلی سے ان کے خاندان کا نام بدنام نہ ہو جائے۔
1918 میں ٹینک ٹروپس کی کمان کرتے ہوئے ایک موقع آیا جب پیٹن کے اعصاب شکست کے خوف سے شل ہو گئے۔ اسی لمحے ان کا دھیان اپنے بزرگوں کی دلیری کی طرف گیا، جو انہیں کہہ رہے تھے کہ لڑتے ہوئے ہمارے پاس آ جاؤ۔ اس ایک لمحے نے پیٹن کی زندگی بدل دی۔ وہ خوف پر قابو پا گئے، نعرہ مارا اور دشمن پر چڑھ دوڑے۔اس کے بعد حتیٰ کہ جب وہ جنرل بن گئے، پیٹن خوفناک وارفرنٹ لائنوں پر جاتے تاکہ خوف ختم ہو جائے۔ انہوں نے خود کو بار بار آزمایااور ہر بار خوف پر قابو پانا آسان ہوتا گیا۔

پیٹن کی کہانی سے سبق ملتا ہے کہ خوف کا سامنا کریں، اسے سطح پر آنے دیں، نہ کہ نظر انداز کریں۔

اب اندازہ کریں کہ جو فوج پچھلے بیس سال سے صبح شام موت کا سامنا کر رہی ہے، وہ ایک اور جنگ سے کیا گھبرائے گی؟