(جہاں صارف دائرے میں گھومتا ہے مگر منافع سیدھا سفر کرتا ہے)
تحریر مبشر حسن شاہ
سٹیٹ بینک آف پاکستان ایک روپے کی قدر سے کم کے سکے سے جاری کرنا 2013 کے بعد مکمل بند کر چکا ہے۔
1 پیسہ 1961 سے 1994 تک
2 پیسے 1961 سے1994 تک
5 پیسے 1961 سے 1994 تک
10 پیسے 1961 سے 1994 تک
25 پیسے 1963 سے 2013 تک
50 پیسے 1963 سے 2013 تک
اب تو 2025 میں 1 روپے۔ دو روپے پانچ روپے کے سکے بھی نایاب ہوچکے اگرچہ قانوناً یہ سکے پاکستانی کرنسی کا حصہ ہیں اور جاری ہیں لیکن عملاً ان کا لین دین بند ہو چکا ہے ۔ وجہ مہنگائی کا بڑھنا ہے اب شائد ہی کوئی چیز ایک روپے دو روپے یا پانچ روپے کی ملے ۔ دکاندار بھی یہ سکے اب قبول نہیں کرتے کیونکہ کاروبار میں عملاً ان کا لین دین ختم ہو چکا ہے۔ سٹیٹ بینک اگرچہ یہ سکے فراہم کرتا ہے لیکن کمرشل بینک اب صارفین کو نہیں دیتے ۔ لوگ بھی ان کو لینے سے کتراتے ہیں۔ گھر میں بھی سکے بچوں کو دیے جاتے ہیں لہذا بڑی تعداد سکے گردش سے باہر ہو جاتے۔
لیکن ہم سب سرمایہ دارانہ نظام کی ایک ایسی چال کا شکار ہیں جو غیر محسوس طریقے سے ہماری جیب سے ان گنت پیسے نکال کر اربوں روپے کمانے کا راز ہے۔ ایک ماہ میں دو مرتبہ آپ اور میں بڑی بے صبری سے خبر پڑھتے ہیں پٹرولیم مصنوعات میں 10 روپے 13 پیسے اضافہ۔ حکومت نے پٹرول سستا کر دیا فی لیٹر قیمت میں 6 روپے تیس پیسے کمی۔ اس کے بعد ہم حسب عادت حکومت کو گالیاں دے کر اور کسی کام میں لگ جاتے اب ذرا حساب کتاب کیجیے۔فروری 2025 میں اوگرا کو مقامی آئل ریفائنری نے خط لکھا جس کے مطابق ملک میں 39 دن کا ڈیزل اور 32 دن کے استعمال کا پٹرول موجود ہے مزید ذخیرہ نہ منگوایا جائے۔
اسی تناظرمیں دستیاب ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں روزانہ پٹرول کی کھپت 2 کروڑ بیس لاکھ لیٹر اور ڈیزل کی روزانہ خریداری 2 کروڑ 79 لاکھ لیٹر ہے۔ ہمیشہ پٹرول پمپ پر وصولی کے وقت پیسوں کو اگلے روپے میں شامل کر کے وصولی کی جاتی ہے اس طرح روزانہ 4 کروڑ اور ماہانہ ایک ارب 20 کروڑ آئل کمپنیاں مفت میں کما رہی ہیں جبکہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم تک نہیں ۔ (اوپر کے ننانوے لاکھ مصلحت کے تحت چھوڑے کہ بعض دفعہ پچھتر پیسے، پچاس پیسے ، پچیس پیسے،بیس پیسے،دس پیسے،پانچ پیسے ہوں تو اور لیٹر جفت تو وہ اگلے روپے میں درست طور پر کنورٹ ہوجاتی)
جب بھی پٹرول کی قیمت بڑھتی فی لیٹر قیمت ضرب دو کروڑ بیس لاکھ لیٹر پٹرول اور دو کروڑ اناسی ہزار لیٹر ڈیزل کی روزانہ مقدار ۔ یہ وہ منافع ہے جو اکثر ملتا ۔ اصولاً جب تک پٹرول کا سٹاک پرانا ہو ریٹ بھی پرانا ہی ہونا چاہیے۔ اب کچھ لوگ سوچیں گے کہ جب پٹرول سستا ہوتا ہے تو تب آئل کمپنیاں نقصان بھی تو اٹھاتی ہیں۔ ایک تو کمپنیاں منافع اتنا نکالتی کہ یہ نقصان کچھ نہیں ہے دوسرا PDC (Price Differential Claim) کے ذریعے حکومت اکثر یہ نقصان پورا کر دیتی۔ مٹی کا تیل اور دیگر مصنوعات کا بھی اندازہ کر لیجیے بگا
یہ صرف آئل کا معاملہ نہیں موبائل کمپنیز کو لے لیں۔ بیلنس چیک کرنے پر بھی کٹوتی۔ کارڈ یا ایزی لوڈ کرانے پر ٹیکس کاٹ لیا جاتا لیکن پھر بھی کسی بھی پیکج کے لیے ایک مرتبہ پھر ٹیکس۔۔۔کالز کے ریٹ ہمیشہ روپے کے ساتھ پیسوں میں وہی پٹرول والا فارمولا کال چارجز میں پیسوں کی جگہ اگلا روپیہ چارج۔ ہر ری چارج پر ٹیکس ہر پیکج پر ٹیکس ہر کال ایس ایم ایس پر پیسوں کی کٹوتی اور کتنے لوگوں کو یہ علم ہے کہ موبائل کمپنیاں دانستہ ایک یا دو ہندسوں کے کوڈ ملانے پر جو اکثر غلطی سے بٹن پریس ہونے پر فعال ہوجاتے ایسے کئی پروگرامز جان بوجھ کر رکھتی ہیں
VAS (Value Added Services) جیسے: خبریں، لطیفے، حب الرومانٹک quotes، اسلامک SMS وغیرہ 1 سے 10 روپے روزانہ
Flash SMS / Push SMS
آپ کی مرضی کے بغیر ایک پاپ اپ آتا ہے "OK” دبانے پر سروس چالو ہو جاتی ہے 3–5 روپے روزانہ
Internet background data Mobile data آن رہنے سے apps خاموشی سے ڈیٹا استعمال کرتے ہیں MB کے حساب سے کٹوتی
Balance Save
سروس فعال نہ ہونا موبائل ڈیٹا آن ہوتے ہی کچھ KB استعمال سے پورا بیلنس کٹ جاتا ہے
کال کنیکٹ ٹون / RBT "آپ جس سے رابطہ کر رہے ہیں…” والی ٹون بغیر مرضی لگ جاتی ہے 2–5 روپے روزانہ
Internet packages auto renew
کئی پیکجز auto-renew ہوتے ہیں جب تک بند نہ کروائیں ہفتہ وار/ماہانہ
Free trial بعد چارجنگ پہلی بار کوئی سروس free trial دیتی ہے، پھر auto-paid version فعال ہو جاتا ہے 5–10 روپے روزانہ
اس کے علاوہ آپ خود یا دکان دار کے ریچارج کرتے وقت غلطی سے بیلنس زیادہ لکھ دیں اور اکاونٹ میں رقم ہوتو کٹوتی ہو جاتی لیکن پیسے واپس نہیں ملتے ۔اکثر پیکجز کے نام دانستہ مبہم رکھ کر صارفین کو دھوکا دیا جاتا بعد میں غور کریں تو باریک۔ سا ایک کونے میں لکھا ہوتا رات 12 سے صبح 9 تک محدود آفر 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق ماہانہ آمدن 78 سے 86 ارب ماہانہ ہے الگ الگ کمپنی کی آمدن بھی پڑھیں
Jazz (PMCL)
31–33 ارب روپے
Zong
22–24 ارب روپے
Telenor
16–18 ارب روپے
Ufone (PTCL Group)
9–11 ارب روپے
اس میں چالیس فیصد یعنی کل 86 ارب کی آمدن میں 34 ارب کالز اور پیکجز کے علاوہ سروسز کی کمائی ہے۔
بجلی کے محکمہ میں چلتے ہیں رجسٹر کنکشن 4 کروڑ سے زائد فی یونٹ ٹیرف
Life‑line
100 یونٹس سے زیادہ یا کم 4.78 / 9.37*
Protected
(1–100) 1–100 یونٹس ≈ 8.52
Protected
(101–200) 101–200 یونٹس ≈ 11.51
Non‑protected
(201–300) 201–300 یونٹس ≈ 34.03
Non‑protected
(>300) 301+ یونٹس ≈ 48.46
صرف نمونہ پیش ہے کہ پیسوں والی ہیرا پھیری ادھر بھی موجود ہے ۔
مزید ستم یہ کہ 200 یونٹ تک جو ریٹ فی یونٹ ہے وہ 201 یونٹ ہوتے ہی ڈبل ٹرپل ہو کر سارے یونٹس پر اپلائی ہوجاتا یعنی 200 پر اور حساب ایک یونٹ اضافی یا مزید پر اصولاً صرف اضافی یونٹس کا ریٹ زیادہ ہونا چاہیے لیکن نہیں۔ چلتے ہیں دبے پاوں کہ کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے۔ ہم بس تبصرے کر سکتے اونچا اونچا بول سکتے گالیاں دے سکتے لیکن عملاً سنجیدہ کوشش نہیں کرنی ۔
بجلی کے بل میں اتنا بل نہیں ہوتا جتنے ٹیکسسز ہوتے۔اور سارے نہیں تو آدھے مبہم ۔ جی ایس ٹی۔ فردر جی ایس ٹی ۔ویری ایبل چارجز ، فکس چارجز ، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ، جی سیس ٹی آن فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ، کواٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ ، نیلم جہلم سرچارج، پرووینشل ڈیوٹی ۔ اپ کو پتا ہے یہ کیا ہے؟ مجھے بھی نہیں پتا لیکن ہم ہر ماہ ادا کرتے ۔ چلیں ایک نیلم جہلم سرچارج کی وضاحت پڑھیں۔ نیلم-جہلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ (969 میگاواٹ) کی تعمیر اور قرضے کی خدمات کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے 2008 میں دس پیسے فی یونٹ آپ کی جیب سے وصول ہوا ,2018 میں یہ پروجیکٹ مکمل ہوا لیکن 2021 تک کٹوتی جاری۔
ان لایعنی ٹیکسسز سے زیادہ اپنی فہم پر رونا آتا کہ ویسے ہم کوئی بل دینے لگیں تو کارل فریڈرک گاؤس اور ایڈم سمتھ(مانا ہوا ریاضی دان کارل فریڈرک گاؤس اور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ) کی روح ہم میں حلول کرجاتی لیکن یہاں بجلی کے بل پر سب چپ بھی اور ادا بھی کردیتے۔ ایک چھوٹی سی کرپشن کم شرارت زیادہ اور بھی ہے آپ کی بجلی کا میٹر اپنے سسٹم کو فعال رکھنے کے لیے اور چھوٹا سا سرخ بلب جلانے کے لیے ایک ماہ میں 0.076 واٹ بجلی استعمال کر لیتا ہے یہ پورے سال کی ایک یونٹ سے کم بجلی ہے سالانہ 0.8 واٹ لیکن جب کنکشن 4 کروڑ ہوں تو اوسط قیمت کم سے کم 12 روپے یونٹ کے حساب سے اس چھوٹے سے خرچ پر ڈالتے
ماہانہ یونٹ 28 لاکھ 44 ہزار اور سالانہ 3 کروڑ۔ 44 لاکھ یونٹ
رقم یا قیمت فی یونٹ 12 روپے کے حساب سے ماہانہ تین کروڑ چوالیس لاکھ روپے اور سالانہ 41 کروڑ 28 لاکھ جو ہم ادا کرتے مل کر ۔
اچھا اداروں سے نکلتے ہیں ایک اور بات کرتے آج کل دکان پر کسی چیز کے روپے میں رقم راونڈ فگر نہ ہو تو ہم میر عثمان علی خان( امیر ترین ریاست دکن کا والی ریاست) کے پڑپوتے سکے واپس لینا شاہی آداب کے منافی سمجھتے . اس کا نقصان غریب دیہاڑی دار مزدور کو ہوتا جو ایسی گستاخی کرے تو دکان دار اسے کہتا تمہارے لیے میں کدھر سے لاوں سکے ۔ اس کے علاوہ اکثر 23 روپے کی چیز ہو تو تیس روپے رکھ لیے جاتے اور دو ٹافیاں ہمارے ہاتھ پر رکھ دی جاتیں جبکہ آپ کسی دن دکان دار کو بیس روپے اور دو ٹافیاں دے کر 23 دوپے کی کسی چیز کا مطالبہ کیجے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بینک سالانہ ہمارے اے ٹی ایم کارڈ کی فیس کس خوشی میں کاٹ لیتے اور اے ٹی ایم کسی اور بینک کی مشین میں
استعمال کرنے پر ٹیکس یا کٹوتی کی وجہ جبکہ بینک ہمارے ہی پیسے سے کاروبار الگ کر رہا ہوتا۔
یہاں بھی چھوٹی چھوٹی ہیرا پھیری کیش میں ہوتی راونڈ فگر جے چکر میں شام تک کشئیر کے پاس معقول رقم جمع ہو چکی ہوتی جو بینک کے حساب سے الگ ہوتی۔ یہاں ایک مشہور افسانوی داستان جس پر سپر مین تھری اور آفس سپیس فلم بھی بنی پڑھیں
بینک کے ایک کشئیر جس کے دماغ میں ایک اچھوتا آئیڈیا آیا
اس شخص نے بینک کا سافٹ ویئر یا حساب کتاب کا نظام سمجھا
اسے معلوم ہوا کہ جب سود، چارجز یا ٹیکس لگتے ہیں تو بعض اوقات 1 پینی کا "راؤنڈ آف” ہو جاتا ہے وہی پاکستان والا پیسوں کا چجر
ان بے کار، نظر نہ آنے والے پینیوں کو وہ اپنے خفیہ اکاؤنٹ میں جمع کرنے لگا
روزانہ ایک پینی ہر اکاؤنٹ سے؛ اگر 10 لاکھ اکاؤنٹ ہوں تو روزانہ £10,000 جمع ہو سکتے ہیں!
یہ عمل 15 سال تک جاری رہا
بالآخر ایک یہودی تاجر روز اپنی بینک سٹیٹمنٹ ایک ماہ لگاتار دیکھتا رہا تو اسے لگا کہ اس کے اکاؤنٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے وہ بینک گیا مینجیر کو ملا اور شکایت کی مینجر نے یہ سن کر قہقہ لگایا اسے ایک پاونڈ دیا اور کہا لیں آپ کا نقصان پورا۔ وہ تاجر برہم ہوا اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ مجھے رقم کی کمی نہیں میں تم لوگوں کے سسٹم میں کسی غلطی کی نشاندہی کرنا چاہتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد مینجر کو احساس ہوا کہ یہ کتنا بڑا سکینڈل بن سکتا اس نے تحقیقات کروائیں اور 15 سال سے جاری یہ فراڈ پکڑا گیا۔ پس تحریر میں نے بھی اپنے سسٹم میں موجود خرابی کی نشاندہی کی ہے اب دیکھیں کون سنتا اور کون قہقہہ لگاتا

روپے اور پیسے کا معاشی چکر.تحریر:مبشر حسن شاہ
Shares: