پرسوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والا میچ ایک انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان نے جیت لیااس میچ میں افغانستان نے ایک ہارے ہوئے میچ کو جس جذبے کے ساتھ کھیلا اور اسے آخر تک لے کر گئے وہ انتہائی قابلِ تعریف ہے۔
جبکہ پاکستان نے ایک ون سائیڈڈ میچ کو جس طرح اپنے لئے مشکل بنایا کہ ایک وقت میں پاکستانی شائقین کرکٹ ذہنی طور پر ہارنے کے لئے تیار ہو گئے وہ پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ اور بیٹنگ کوچ کے لئے خاص طور پر لمحہ فکریہ ہے۔
ویسے حیرانگی کی بات ہے ہمارے پاکستانی کھلاڑی جب غیر ملکی ٹیموں کی کوچنگ کرتے ہیں تو ان کی پرفارمنس میں واضح فرق نظر آتا ہے جیسے ماضی میں ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد اس کی مثال ہیں اور ابھی عمر گل افغانستان کے باؤلنگ کوچ ہیں، اور ان کی کوچنگ کے نتائج اس میچ میں واضح نظر آئے۔
پرسوں کے میچ میں افغان کھلاڑی کی ساتھ آصف کےساتھ تلخ کلامی اور دھکا دینا بلاشبہ کوئی اچھا واقعہ نہیں ہے لیکن پریشر میچوں میں اس طرح کے واقعات ہو جاتے ہیں اور میچ کے بعد کھلاڑی یا ٹیم کے سینئر ان واقعات کو رفع دفع بھی کرا دیتے ہیں۔
لیکن حیرانگی کی بات افغان کرکٹ شائقین کی طرف سے ہارنے کے بعد اختیار کرنے والا رویہ تھا ویسے عرب تارکینِ وطن کی طرف سے امن و امان خراب کرنے کی کوششوں سے انتہائی سختی سے نبٹتے ہیں اور جن لوگوں نے کل اسٹیڈیم میں بدمعاشی کی وہ ان کو قانون کے شکنجے میں لائیں گے ۔
کرکٹ کے میدان میں پاکستان بمقابلہ بھارت اور انگلینڈ بمقابلہ آسٹریلیا ایسے مقابلے ہیں جن میں اپنی ٹیم کی فتح شائقین کرکٹ کے لئے ہر چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہےلیکن ان جذبات کی وجہ ماضی کے واقعات ہی۔
اس کے علاوہ دیگر ٹیموں کے مابین مقابلے شائقین کرکٹ کے لئے کھیل سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتے لیکن افغانستان کی کرکٹ ٹیم کا جو رویہ دوران میچ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہوتا ہے وہ دیگر ٹیموں کے ساتھ نہیں ہوتا جو کہ ایک معنی خیز بات ہے
ہم افغانستان کو برادر اسلامی ملک کہتے ہیں اور افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی بےبہا قربانیاں ہیں افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستان نے اٹھایا ہوا ہے اس کے علاوہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ اسٹیٹس دلوانے میں بھی پاکستان کا اہم کردار ہے۔
ایسے عالم میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیل کے مقابلے کو کھیل سے زیادہ جنگ بنانا کیا یہ افغان ٹیم اور شائقین کے اندرونی جذبات ہیں یا اس کے پیچھے آئی سی سی کی پالیسی ہے ۔
کہ دونوں ٹیموں کے باہمی کرکٹ مقابلوں کو انتہائی جذباتی بنا کر زیادہ سے زیادہ کرکٹ شائقین کی توجہ حاصل کر کے آئی سی سی کی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ عرب ممالک میں پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی اور افغانستان کے تارکین وطن کی اکثریت رہائش پذیر ہے اور پاکستان اپنے ملکی حالات کی وجہ سے ہوم سیریز مجبوراً یو اے ای میں کراتا ہےاس سوال کا جواب آنے والے وقت میں ہی معلوم ہو گا.