(تجزیہ شہزادقریشی)
ملک کی بقا اور سلامتی کے لئے اپنی جان نثار کرنے والے شہیدوں اور غازیوں کی داستانیں بیان کرناچاہیں تو ان کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہوں گے۔ لیکن یہ کیسی پارلیمانی جمہوریت ہے ۔ یہ کیسے سیاستدان ہیں ملکی تاریخ میں کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس نے فوج پر تنقید نہ کی ہو ، کسی نے اینٹ سے اینٹ بجانے کسی نے حساب دینا پڑے گا صدائیں لگائیں۔ لیکن 9 مئی کے واقعات نے تو ہلا کر رکھ دیا ۔ عدلیہ ، فوج اور پاک فوج کے جملہ اداروں کو عالمی دنیا میں متنازعہ بنا کر رکھ دیا گیا۔میرا اپنا تعلق پوٹھوہار سے ہے ہر دوسرے گھر کاایک نہ ایک سپوت پاک افواج کاحصہ ہوتا ہے ۔ ان دیہی علاقوں میں نیٹ بھی صحیح کام نہیں کرتا جہاں فوجی جوان تعینات ہیں وہاں موبائل کے سگنل بھی ایک مسئلہ ہے۔ میرے علاقے کے سینکڑوں قبرستانوں میں شہداء کے مقبرے بنے ہیں جنہوں نے اپنے وطن کی خاطر قربانیاں دی ہیں۔ آج بھی پاک فوج کے انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز فوجی افسران خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ فوجی یا تو ڈھول سپاہی ہوتا ہے یا پھر فوجی بھائی ان بے رحم سیاستدانوں کو ان فوجی بھائیوں اور فوجی افسران کا احترام کرنا چاہیئے۔
زلزلوں ،سیلاب قحط زدہ علاقوں کی مدد کرنا ۔ گرمی میں گرم وردی میں لمبے چمڑے کے بوٹوں میں تپتی بندوقیں ہاتھ میں لئے چوکس کھڑے ہوتے ہیں حالت جنگ میں فوجی جب اگلے مورچوں پر ہوتے ہیں تو ان کے گھروں میں جو بے خواب راتیں گزرتی ہیں ان کے لئے کیا کبھی کسی اہل دل نے سوچا؟ ۔ ان کی شہید میتیں ان کے گھروں میں جب پہنچائی جاتی ہیں ۔ ان کی مائوں ،بہنوں ، بیویوں پر کیا گزرتی ہے کیا کسی نے کبھی سوچا ؟ اس قوم کا پاک فوج سے محبت کاایک کلچر بن چکا ہے اوریہ نہ ختم ہونے والا کلچر ہے یہ فوجی جوان لینڈ سلائیڈ بپھری ہوئی موجوں ، وبائی امراض، حشرات الارض ، خدمت کے لئے فوری پہنچ جاتے ہیں۔ ملکی سیاستدانوں پر لازم ہے کہ وہ پاک فوج کی لازوال قربانیوں اورخدمات کے معترف ہیں اور انہیں اپنے اپنے اقتدار کی سیڑھی نہ بنائیں اور اپنے سیاسی جھگڑے آپس میں بیٹھ کر حل کریں۔