پاک بھارت جنگ 2025:فتح ، شکست اور عالمی میڈیا
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفی بڈانی
مئی 2025 کا پاک بھارت فوجی تصادم جو محض چار دن جاری رہا، نہ صرف جنوبی ایشیا کی جیو پولیٹیکل تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا بلکہ عالمی میڈیا کے لیے ایک سنسنی خیز داستان بھی بن گیا۔ یہ تنازعہ، جومقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں 26 شہریوں کی ہلاکت سے شروع ہوا، دو جوہری طاقتوں کے درمیان ایک خطرناک کھیل تھا، جس نے دنیا کو ایک ممکنہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ عالمی میڈیا نے اس تنازعہ کو مختلف زاویوں سے دیکھاپاکستان کی فوج کی بحال شدہ ساکھ سے لے کر بھارت کی اسٹریٹجک ناکامی تک اور ڈس انفارمیشن سے لے کر عالمی ثالثی کی کمزوریوں تک،ہم اس کالم میں تنازعہ کے فتح و شکست کے دعوئوں، اس کے اثرات اور عالمی میڈیا کے تجزیاتی نقطہ نظر کی روشنی میں اس کی گہرائی سے جائزہ پیش کررہے ہیں۔
تنازعہ 7 مئی 2025 کو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب بھارت نے پہلگام حملے کے جواب میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو مقامات پر بمباری کی، جسے اس نے "آپریشن سندور” کا نام دیا۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بھارت نے اسے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ قرار دیا جبکہ پاکستان نے اسے شہری علاقوں پر جارحیت کہا۔ چار روز تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں دونوں ممالک نے میزائل، ڈرون اور فضائی حملوں کا تبادلہ کیا۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ "How the India-Pakistan Clashes Unfolded and What We Know About the Cease-Fire” میں لکھا کہ جدید جنگی ٹیکنالوجی، جیسے کہ ڈرونز اور میزائلوں کا استعمال نے اس تنازعہ کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ بنا دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے 10 مئی کو جنگ بندی ہوئی، لیکن دونوں ممالک نے فتح کے دعوے کیے، جس نے تنازعہ کے نتائج پر عالمی بحث کو جنم دیا۔
پاکستان کے لیے یہ تنازعہ فوج کی ملکی ساکھ کو بحال کرنے کا ایک سنہری موقع ثابت ہوا۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ "How conflict with India helped boost the Pakistan militarys domestic image” میں بتایا کہ پاکستانی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے دعوی کیا کہ پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیاروں، ایک ڈرون اور کئی کواڈ کاپٹروں کو مار گرایا۔ اس کامیابی نے پاکستانی فضائیہ کی صلاحیت کو اجاگر کیا اور 11 مئی کو ہزاروں افراد نے فوج کی حمایت میں ریلیاں نکالیں، جو مئی 2023 کے فوج مخالف مظاہروں کے بالکل برعکس تھا۔ پاکستانی تجزیہ کار عارفہ نور نے کہا کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تنازعہ عوام کو فوج کے گرد متحد کرتا ہے اور اس تنازعہ نے پاکستانی فوج کو قومی فخر کا نشان بنا دیا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ "Kashmir: How China benefited from India-Pakistan hostilities” میں لکھا کہ چینی ساختہ J-10C جنگی طیاروں اور PL-15 میزائلوں کی کامیابی نے پاکستان کی فوجی طاقت کو مضبوط کیا اور چین کی دفاعی صنعت کی عالمی ساکھ کو فروغ دیا۔ تاہم، نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا کہ یہ مقبولیت عارضی ہو سکتی ہے کیونکہ سیاسی مسائل جیسے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری، عوامی جذبات کو تقسیم کر رہے ہیں۔
بھارت کے لیے یہ تنازعہ اسٹریٹجک ناکامی کا باعث بنا۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ "Why Theres No Battlefield Solution to Indias Perpetual Pakistan Problem” میں لکھا کہ بھارت کو کوئی واضح فوجی فتح حاصل نہیں ہوئی۔ سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی حملوں سے محدود نقصان ہوا اور سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تنازعہ بھارت کے لیے ایک "اسٹریٹجک خلفشار” ہے جو اس کی ترقی کو متاثر کرتا ہے۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ "What did India and Pakistan gain and lose in their military standoff?” میں بتایا کہ بھارت نے کشمیر کے تنازعہ کو عالمی سطح پر اجاگر کیا، لیکن اس کی سخت گیر پالیسیوں نے خطے میں کشیدگی کو بڑھایا۔ نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پالیسیوں نے پاکستانی عوام اور عالمی برادری میں بھارت کے خلاف جذبات کو ہوا دی، جس سے بھارت کی سفارتی پوزیشن کمزور ہوئی۔
عالمی ردعمل اس تنازعہ کے حوالے سے ملاجلا رہا۔ روائٹرز نے اپنی رپورٹ "Pakistan says it is committed to truce with India, vows response to aggression” میں لکھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی نے جنگ بندی کو ممکن بنایا۔ تاہم، انڈراسٹرا نے اپنی رپورٹ "India and Pakistans Escalating Conflict: A Crisis Without a Mediator” میں خبردار کیا کہ عالمی ثالثی کے میکانزم کمزور ہو رہے ہیں۔ چین نے پاکستانی فوج کی حمایت کی، جیسا کہ ووکل میڈیا نے اپنی رپورٹ "India-Pakistan Crisis 2025: A Comprehensive Political, Economic, and Global Analysis” میں ذکر کیا جبکہ ایران اور روس نے خطے کے استحکام کے لیے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈس انفارمیشن نے اس تنازعہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ "Why Disinformation Surged During the India-Pakistan Crisis” میں لکھا کہ سوشل میڈیا پر جعلی ویڈیوز، جیسے کہ ایرانی میزائل حملوں کو بھارتی حملوں کے طور پر پیش کرنا اور مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ویڈیوز نے عوامی جذبات کو بھڑکایا۔ اٹلانٹک کونسل نے اپنی رپورٹ "Experts react: India and Pakistan have agreed to a shaky cease-fire” میں بتایا کہ پاکستان نے ایکس پر پابندی ہٹائی جبکہ بھارت نے ہزاروں ایکس اکائونٹس کو ڈس انفارمیشن پھیلانے کے الزام میں ہٹایا۔ اس ڈس انفارمیشن نے دونوں ممالک کے دعوئوں کی صداقت پر سوالات اٹھائے اور عالمی برادری کے لیے تنازعہ کے حقائق کو سمجھنا مشکل بنا دیا۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے، بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے اپنی رپورٹ "Lessons for the next India-Pakistan war” میں لکھا کہ دونوں ممالک اس تنازعہ سے فوجی سبق سیکھیں گے۔ بھارت کے حملوں نے پاکستان کے حساس فوجی اڈوں جیسے کہ نور خان ایئر بیس کو نشانہ بنایا، جس سے پاکستان کے فضائی دفاع کی کمزوریاں سامنے آئیں۔ دوسری جانب چینی ہتھیاروں کی کامیابی نے پاکستان کی حکمت عملی کو مضبوط کیا۔ بیلفر سینٹر نے اپنی رپورٹ "Escalation Gone Meta: Strategic Lessons from the 2025 India-Pakistan Crisis” میں خبردار کیا کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور جدید ٹیکنالوجی نے غلط فہمیوں کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ سی بی ایس نیوز نے اپنی رپورٹ "Why were India and Pakistan on the brink of war?” میں کہا کہ کشمیر کا تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے اور اس کے حل کے بغیر مستقل امن ممکن نہیں۔
مئی 2025 کا پاک بھارت تنازعہ ایک فوجی تصادم سے کہیں زیادہ تھایہ قومی فخر، سیاسی تقسیم اور عالمی سفارت کاری کی آزمائش تھا۔ پاکستانی فوج کی بحال شدہ ساکھ، جیسا کہ الجزیرہ نے رپورٹ کیا نے قومی اتحاد کو فروغ دیا، لیکن نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سیاسی عدم استحکام اسے عارضی بنا سکتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ تنازعہ اسٹریٹجک ناکامی کا باعث بنا، جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے بیان کیا جبکہ عالمی میڈیا نے اسے جوہری خطرات اور ڈس انفارمیشن کے تناظر میں دیکھا۔ کشمیر کا تنازعہ جو اس تصادم کی جڑ ہے، اب بھی حل طلب ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ثالثی کے میکانزم کو مضبوط کرے اور اس خطے میں امن کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے، ورنہ یہ تنازعہ مستقبل میں مزید تباہ کن شکل اختیار کر سکتا ہے۔