وزیراعظم شہبازشریف کی ہدایت پر غزہ کیلئے امدادی سامان کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق الخدمت فاؤنڈیشن کے تعاون سے غزہ کیلئے امدادی سامان کی 19 ویں کھیپ روانہ کردی ہےلاہور سے روانہ ہونے والی کھیپ میں 100 ٹن امدادی سامان شامل ہے، جس میں آٹے کے تھیلے، تیار کھانا، کوکنگ آئل اور ڈبہ بند فروٹ شامل ہیں، پاکستان اب تک 19 امدادی کھیپوں کے ذریعےمجموعی طور پر 1915 ٹن امدادی سامان غزہ بھیج چکا ہے۔

واضح،رہےکہ،انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) نے جمعہ کے روز شمالی غزہ، بشمول غزہ شہر، میں قحط کی باضابطہ تصدیق کر دی، اس اعلان کے مطابق علاقے کی آدھی سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 5 لاکھ 14 ہزار افرادشدید غذائی قلت کا شکار ہیں یہ تعداد ستمبر کے آخر تک بڑھ کر 6 لاکھ 41 ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔

IPC کے مطابق قحط اس وقت قرار دیا جاتا ہے جب:م از کم 20 فیصد گھرانے کھانے کی شدید کمی کا شکار ہوں،30 فیصد بچے شدید غذائی قلت میں مبتلا ہوں،اور بھوک سے مرنے والوں کی یومیہ شرح ہر 10 ہزار میں 2 بالغ یا 4 بچے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ غزہ میں براہِ راست ڈیٹا جمع کرنا ممکن نہ ہونے کے باعث متبادل پیمانہ استعمال کیا گیا۔ اس کے تحت بچوں کی اوپری بازو کی گولائی سے غذائی قلت کا اندازہ لگایا گیا، جس نے شدید بحران کی تصدیق کی۔

IPC نے خبردار کیا کہ اگر انسانی بنیادوں پر امدادی اقدامات نہ بڑھے تو موجودہ ’ہولناک حالات‘ جنوب کی طرف دیر البلح اور خان یونس تک پھیل سکتے ہیں،وقت تیزی سے گزر رہا ہے فوری جنگ بندی اور رکاوٹ سے پاک بڑے پیمانے پر امدادی رسائی ناگزیر ہے،یہ اعلان گزشتہ 2 دہائیوں میں IPC کی جانب سے صرف چوتھی مرتبہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ خوراک اور عالمی ادارہ صحت نے پہلے ہی اس فیصلے کی پیش گوئی کی تھی۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہاکہ،یہ قحط کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانوں کے ہاتھوں بنائی گئی تباہی ہے، ایک اخلاقی ناکامی۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں، بچے دم توڑ رہے ہیں، اور وہ لوگ جو مدد کر سکتے ہیں، خاموش ہیں۔‘

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہاکہ’جنگ بندی فوری ضرورت ہی نہیں بلکہ اخلاقی فرض ہے۔ دنیا بہت دیر تک دیکھتی رہی، اور اب یہ قحط معصوم جانیں نگل رہا ہے۔‘

ورلڈ پیس فاؤنڈیشن نے بی بی سی کو بتایا کہ IPC نے جو طریقہ کار استعمال کیا وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور کسی قسم کی ‘نئی یا کمزور شرط‘ نہیں اپنائی گئی۔
فاؤنڈیشن کے سربراہ ایلیکس ڈی وال نے کہاکہ،اسرائیل انسانی بنیادوں پر ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور پھر شواہد کی کمی پر تنقید کرتا ہے۔‘

Shares: