پاک روس مضبوط ہوتے رشتے اور امریکی پابندیاں
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
پاکستان اور روس کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت نے دونوں ممالک کے روابط کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے، جس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکہ اس بڑھتے ہوئے اتحاد کو روکنے میں کامیاب ہو پائے گا؟

روس پاکستان کے لیے ایک اہم شراکت دار بن کر ابھرا ہے جو نہ صرف اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں مدد فراہم کر رہا ہے بلکہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کو بھی مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ روس کی جانب سے توانائی کے شعبے میں پیش کیے جانے والے وسیع مواقع، جیسے گیس پائپ لائن منصوبے اور خام تیل کی برآمد، پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔ مزید برآں روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے کارگو ٹرین منصوبے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو پاکستان کو عالمی تجارتی نیٹ ورک کا حصہ بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے آزاد خارجہ تعلقات کے تناظر میں روس کے ساتھ تعلقات کی یہ نئی پیش رفت نہ صرف اقتصادی استحکام بلکہ دفاعی تعاون میں بھی اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقوں اور دفاعی معاہدوں پر بھی کام کیا ہے جو ان کے رشتہ کو مزید مستحکم کرتا ہے۔

تاہم امریکہ نے حالیہ دنوں میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں، خاص طور پر اس کے میزائل پروگرام پرتاکہ پاکستان کو روس کے قریب جانے سے روکا جا سکے۔ امریکہ کے اس اقدام کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے پھیلا ئوکو روکنا بتایا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ناکام کوشش معلوم ہوتی ہے جو پاکستان کی خودمختاری میں مداخلت کی غماز ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے ان پابندیوں کو تعصب پر مبنی اور بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خطے کے استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔ ان پابندیوں کے باوجود پاکستان نے روس کے ساتھ اپنے اقتصادی، تجارتی اور دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، جیسے نارتھ سائوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور میں شمولیت اور دیگر مشترکہ منصوبوں کی منصوبہ بندی۔

پاکستانی تھنک ٹینکس اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی، قومی مفادات اور خطے میں روس کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیں اور امریکی پابندیوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ امریکی پابندیوں کی پاکستان پر ایک طویل تاریخ ہے، اور امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتا آیا ہے۔ اس لیے اب ان پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو
اپنے مفادات کو ترجیح دینی چاہیے اور ایسی پالیسی مرتب کرنی چاہیے جو نہ صرف موجودہ حالات بلکہ مستقبل میں آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی مضبوط ہو۔

امریکہ کا طویل مدتی مقصد ہمیشہ اپنے مخالفین کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دبائو میں لانا رہا ہے، لیکن پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ایک واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان اب اپنی خارجہ پالیسی میں مزید خودمختاری حاصل کرنے کی جانب گامزن ہے۔ ان پابندیوں کے باوجود پاکستان اور روس کے تعلقات کا نیا دور نہ صرف اقتصادی ترقی کے لیے بلکہ جغرافیائی استحکام کے لیے بھی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ اس نئے اتحاد کو روکنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں؟

پاکستان اور روس کے مضبوط ہوتے تعلقات خاص طور پر امریکی دبائو اور پابندیوں کے باوجود اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ایک آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل میں کامیاب ہو رہا ہے۔ یہ شراکت نہ صرف خطے میں جغرافیائی استحکام کو فروغ دے سکتی ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے توازن میں بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ امریکی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے اور اپنے اقتصادی و دفاعی شعبوں کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کو روس جیسے قابل اعتماد شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینی ہوگی۔ موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان سفارتی سطح پر مضبوطی سے اپنے مفادات کا دفاع کرے اور مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایک متوازن اور پائیدار حکمت عملی اختیار کرے۔

Shares: