پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ جتنی پرانی ہے، اتنی ہی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف مذہبی و تہذیبی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں بلکہ سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک پہلوؤں سے بھی ایک دوسرے کے قریبی حلیف ہیں۔ یہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ کئی نشیب و فراز سے گزرے مگر ان کی اساس ہمیشہ قائم رہی۔ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم پاکستان کے دورۂ سعودی عرب اور سعودی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں نے اس رشتے کو ایک نئے موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں مستقبل کے امکانات مزید وسعت اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔مذہبی و روحانی رشتہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سب سے گہرا رشتہ روحانی ہے۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی فریضۂ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں۔ حرمین شریفین کی محبت پاکستانی عوام کے دلوں میں رچی بسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کو پاکستان میں ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ دینی رشتہ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات کو بھی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سعودی عرب نے اسے تسلیم کیا اور ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔
1965 اور 1971 کی جنگوں میں سعودی عرب نے پاکستان کی سفارتی و مالی مدد کی۔ افغانستان میں سوویت مداخلت کے دور میں بھی دونوں ممالک نے مشترکہ حکمت عملی اختیار کی۔ پاکستان کے حایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھی سعودی عرب نے سفارتی سطح پر حمایت فراہم کی۔حالیہ دورۂ وزیر اعظم اور نئے امکانات ، وزیر اعظم پاکستان کا حالیہ دورۂ سعودی عرب اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ سعودی قیادت نے پاکستان کو سرمایہ کاری کے بڑے مواقع فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ خاص طور پر گوادر اور سی پیک منصوبوں میں سعودی شمولیت نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے فائدہ مند ہوگی بلکہ خطے میں سعودی اثر و رسوخ کو بھی بڑھائے گی۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ "پاک سعودی سرمایہ کاری تجارتی تعلقات مزید مستحکم کریں گے۔” یہ بیان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ممالک محض جذباتی یا مذہبی رشتے تک محدود نہیں رہنا چاہتے بلکہ عملی اور معاشی بنیادوں پر تعلقات کو نئی جہت دینا چاہتے ہیں۔معاشی و تجارتی تعاون ۔سعودی عرب پاکستان کو تیل اور توانائی کے شعبے میں بڑے پراجیکٹس کی پیشکش کر رہا ہے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کے توانائی بحران کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے میں بھی سعودی سرمایہ کار دلچسپی رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اپنی فوڈ سیکیورٹی کے لیے پاکستان کی زرخیز زمینوں اور افرادی قوت کو بروئے کار لا سکتا ہے۔پاکستانی محنت کش سعودی عرب کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کر کے ہر سال اربوں ڈالر زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان محنت کشوں کو بہتر سہولیات اور حقوق فراہم کیے جائیں تاکہ دونوں ممالک کا رشتہ مزید مضبوط ہو۔دفاعی اور اسٹریٹجک تعلقاتکے حوالے سے پاک فوج اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون بھی کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ سعودی افواج کی تربیت، مشترکہ مشقیں، اور سیکیورٹی کے مختلف شعبوں میں تعاون ہمیشہ جاری رہا ہے۔ خطے کے بدلتے حالات میں یہ تعاون مزید اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ یمن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر تنازعات میں پاکستان نے ہمیشہ محتاط لیکن برادرانہ کردار ادا کیا ہے تاکہ سعودی عرب کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔عوامی وابستگی اور ثقافتی رشتہ ،پاکستانی عوام سعودی عرب کو صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک روحانی مرکز سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی سیاسی قیادت بھی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو عوامی خواہشات کے عین مطابق ترجیح دیتی ہے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی نہ صرف اپنے خاندانوں کا سہارا ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک "پل” کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہیں لیکن چند چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی اکثر پاکستان کے لیے ایک مشکل صورت حال پیدا کر دیتی ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ محتاط رہنا پڑتا ہے کہ وہ کسی ایک جانب زیادہ نہ جھکے۔ اسی طرح پاکستان کی معاشی کمزوری اور بار بار کے سیاسی بحران بھی سعودی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب اپنے تعلقات کو ایک پائیدار معاشی شراکت داری میں تبدیل کریں۔ محض بیانات یا جذباتی نعروں سے کام نہیں چلے گا بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔سی پیک میں سعودی شمولیت پاکستان کی اقتصادی راہداری کو مزید مضبوط بنا سکتی ہے۔توانائی منصوبے سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کا توانائی بحران کم ہو سکتا ہے۔زرعی شعبے میں مشترکہ منصوبے دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔ٹیکنالوجی اور تعلیم کے میدان میں تعاون نئی نسل کو مواقع فراہم کرے گا۔

سفارتی سطح پر اشتراک اسلامی دنیا کے مسائل کے حل میں دونوں ممالک کو قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔پاک سعودی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ محض ایک ریاستی تعلق نہیں بلکہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کی جڑیں عوامی دلوں میں پیوست ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعلقات کو معاشی اور تجارتی بنیادوں پر مزید وسعت دی جائے تاکہ دونوں ممالک کے عوام حقیقی معنوں میں مستفید ہو سکیں۔ وزیر اعظم کا حالیہ بیان اور سعودی قیادت کی دلچسپی امید دلاتی ہے کہ مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب نہ صرف ایک دوسرے کے قریب آئیں گے بلکہ خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے مشترکہ کردار ادا کریں گے

Shares: