اسلام آباد: پاکستان نے آل پارٹی حریت کانفرنس کی جانب سے مسرت عالم بٹ کو نیا چیئر مین اے پی ایچ سی اور شبیر احمد اور غلام احمد گلزار کو وائس چیئرمین تعینات کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے آل پارٹی حریت کانفرنس (اے پی ایچ) سی قیادت کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کے حقیقی نمائندوں کی حیثیت سے ،اے پی ایچ سی قیادت ان کی امنگوں کی حقیقی آواز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اے پی ایچ سے برسوں سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حق کیلئے جدوجہد جہد میں پیش پیش ہے۔بغیر کسی شک و شبہ کے انہیں جموں و کشمیر کے ایک حصہ پر غیر قانونی بھارتی تسلط کیخلاف کشمیریوں کی جدوجہد کی مشعل بردار کی حیثیت سے کشمیری عوام کی حمایت حاصل ہے۔
اپنے حصے کے طور پر پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کی جائز جدوجہد میں کشمیری عوام کو ہر ممکن تعاون کی فراہمی جاری رکھے گا۔
جموں و کشمیر مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے مسرت عالم بھٹ اپنی 50 برس کی زندگی میں سے 24 سال انڈین جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ انھیں انڈین حکام کی جانب سے 38 مرتبہ حراست میں لیا گیا۔ اس وجہ سے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سنگاپور کے ڈاکٹر چائی تھائے پوش کے بعد ایشیا میں طوﯾل ﻋرﺻﮯ ﺗﮏ سیاسی قیدی رہنے والی شخصیت ہیں۔
انھیں کشمیر میں حق ﺧود ارادیت اور آزادی ﮐﯽ جنگ کے لیے سرگرم ہونے پر جموں و کشمیر پبلک سیفٹی اﯾﮑٹ 1978 ﮐﮯ ﺗﺣت 38 ﺑﺎر ﺣراﺳت ﻣﯾں لیا گیا ﮨﮯ اور وہ کسی اﻟزام ﯾﺎ ﻣﻘدﻣﮯ ﮐﯽ سماعت ﮐﮯ بغیر چوبیس سال جیلوں میں رہے ہیں۔
جون 1971 میں سری نگر میں پیدا ہونے مسرت عالم بھٹ اگرچہ پہلی بار 19 سال کی عمر میں گرفتار ہوئے تاہم 2008 سے قبل کشمیری ان کے نام سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے۔
وہ 2008 میں اس وقت مزاحمتی رہنما کے طور پر ابھرے جب انہوں نے کشمیر کی زمینوں کو آل ہندو شرائن بورڈ کو منتقل کیے جانے کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا اور عملی جدوجہد شروع کی جس کے بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا اور انھیں کشمیر سے باہر بھی انڈین جیلوں میں رکھا گیا۔
26مئی 2008 کو کشمیر میں انڈین ﺣﮑﺎم ﻧﮯ 99 اﯾﮑڑ ﺟﻧﮕﻼت ﮐﯽ زمین کو اﻣرﻧﺎﺗﮭ ﻣزار ﺑورڈ کو منتقل ﮐردﯾﺎ۔ اس پر تنازع پیدا ہوا اور زمین کی منتقلی کے خلاف کشمیر میں مظاہرے شروع ہوگئے اس دوران 60 سے زائد افراد کو قتل کیا تو کشمیر میں اﯾﮏ ﮨﯽ رﯾﻠﯽ میں لاکھوں افراد امڈ اور ﺑﺎﻵﺧر منتقلی روک دی گئی۔
دو ﺳﺎل بعد جون میں مسرت عالم ﮐﯽ ﺣراﺳت کو کشمیر ﮐﯽ اﯾﮏ اﻋﻠﯽٰ عدالت ﻧﮯ منسوخ ﮐردﯾﺎ اور رﮨﺎ ﮐردﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔ کچھ دن روپوش رہنے کے بعد انہوں ﻧﮯ ’کشمیر ﭼﮭوڑ دو‘ تحریک ﮐﺎ اﻋﻼن ﮐﯾﺎ۔
کشمیر میں پہلی بار پیلٹ گنز کا استعمال کیا گیا تو مسرت عالم کا نعرہ ’گو انڈیا، گو بیک‘ نے پورے کشمیر میں گونجنے لگا جس کے بعد انھیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور وہ تب سے زیر حراست ہیں۔
ﻣﺳرت عالم زمانہ طالب علمی سے مزاحمتی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ جب انھیں پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا اس وقت ان کی عمر 19 برس تھی۔ اور ان کو ﺣزب ﷲ کا رکن ہونے کے الزام میں دو اکتوبر 1990 کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔
انھیں نومبر 1991 ﻣﯾں رﮨﺎ کیا گیا ﺗﺎﮨم 1993 ﻣﯾں ﭘﮭر ﺣراﺳت ﻣﯾں ﻟﯾﺎ ﮔﯾﺎ اور1997 تک جیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے چھ ماہ بعد ستمبر 1997 میں پھر گرفتار کیا گیا جبکہ چوتھی بار مئی 2000 ﺗﮏ ﮔرﻓﺗﺎر ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔
ﺟﻧوری میں 2001 ﻣﯾں پھر گرفتار ہوئے اور اﮔﺳت 2003 میں دو ﻣﺎه ﮐﮯ لیے رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔ انہیں دوﺑﺎره اﮐﺗوﺑر 2003 ﻣﯾں ﺣراﺳت میں ﻟﯾﺎ ﮔﯾﺎ اور 2005 ﻣﯾں رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
اس دوران اے پی ایچ ﺳﯽ ﮐﮯ اﯾﮏ حصے ﻧﮯ اس وقت کے وزﯾراﻋظم ڈاﮐﭨر ﻣن ﻣوﮨن ﺳﻧﮕﮭ کے ساتھ کشمیر کے تنازع کے حوالے سے ﺑﺎت ﭼﯾت شروع ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ اس بنیاد پر منموہن ﺳﻧﮕﮭ ﻧﮯ پبلک سیفٹی ایکٹ اور پوٹا کے تحت گرفتار کیے جانے والے کشمیری قائدین کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
22 اپریل 2007 کو مسرت عالم کو اس لیے رہا کیا گیا تاکہ ان کو پھر سے گرفتار کیا جا سکے۔ اس دفعہ مسرت عالم کے اہل خانہ نے پہلی بار ﻧظرﺑﻧدی ﮐﮯ ﺣﮑم ﮐو ﭼﯾﻠﻧﺞ ﮐﯾﺎ۔ اس سے قبل انہوں نے کسی بھی انڈین عدالت میں درخواست دینے سے انکار کیا تھا
انہوں نے 1990 ﺳﮯ 2005 ﮐﮯ درﻣﯾﺎن 15 برسوں ﻣﯾں ﺳﮯ 12 سال کسی ﺑﮭﯽ مجرمانہ اﻟزام ﯾﺎ ﻣﻘدﻣﮯ ﮐﯽ ﺳﻣﺎﻋت ﮐﮯ ﺑﻐﯾر ﻧظرﺑﻧدی ﻣﯾں ﮔزارے۔
2015 ﻣﯾں عدالت نے ان کی 33 وﯾں ﻧظرﺑﻧدی منسوخ کرتے ہوئے 45 روز کے لیے رہا کیا ﻟﯾﮑن ﺑﯽ ﺟﮯ ﭘﯽ ﻧﮯ ان ﮐﯽ رﮨﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺧﻼف انڈین ﭘﺎرﻟﯾﻣﻧٹ ﻣﯾں اﯾﮏ ﮨﻧﮕﺎمہ ﮐﮭڑا ﮐردﯾﺎ اور حکمران طبقے کی ایما پر سری نگر سے مسرت عالم کو پھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ ﻣﺳرت ﺗب ﺳﮯ ﺟﯾل ﻣﯾں ہیں۔
1990 ﮐﮯ ﺑﻌد ﺳﮯ اب تک ﻣﺳرت عالم ﮐﯽ 38 نظربندیوں نے انہیں نہ ﺻرف ﮐﺷﻣﯾر ﻣﯾں بلکہ پورے اﯾﺷﯾﺎ ﻣﯾں طوﯾل ﻋرﺻﮯ ﺗﮏ حراست میں رہنے والا سیاسی قیدی بنا دیا۔ سنگا پور کے ڈاﮐﭨر ﭘوش ﮐﮯ ﺑﻌد وہ طویل ترین حراستیں برداشت کرنے والے رہنما ہیں، ڈاکٹر پوش ﺳﻧﮕﺎﭘور ﮐﮯ ﻧﺎم ﻧﮩﺎد داﺧﻠﯽ ﺳﻼﻣﺗﯽ اﯾﮑٹ ﮐﮯ ﺗﺣت اﮐﺗوﺑر 1966 ﮐﮯ ﺑﻌد 22 ﺳﺎل ﺗﮏ ﻧظرﺑﻧد رہے۔
ﻣﺳرت 1990 ﮐﮯ ﺑﻌد ﺳﮯ محض 54 ﻣﺎه ﺟﯾل ﺳﮯ ﺑﺎﮨر رہے۔ ان کی بہن کا 2016 میں انتقال ہوا تو انہیں جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ مسرت عالم کا تعلق ﺳری ﻧﮕر ﮐﮯ مشہور کاروباری خاندان سے ہے۔
سیاست میں آنے کے بعد ان کے خاندان کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا لیکن خود مختاری کے لیے اس سودے پر مسرت کو کوئی افسوس نہیں ہے۔