دسمبر 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا بیج بوئے گئے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

0
67
qazi faiz esa

آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت، جسسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین پاکستان کی 50ویں سالگرہ منارہے ہیں،آزادی حاصل کرنے کے بعد سب سے زیادہ ضرورت آئین کی تھی،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ میرے لیے کتاب نہیں ،اس میں لوگوں کے حقوق ہیں،آئین پاکستان کے لوگوں کے لیے ہے،1947میں دنیا میں پہلی اسلامی ریاست وجود میں آئیہم اس آئین کی تشریح کرسکتے ہیں،قائداعظم ہرکونے کونے میں گئے اوربھرپور جدوجہد کے بعدپاکستان قائم ہوتاہے،آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا گیا جس کا وہ مستحق تھا دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا، اچانک نہیں ٹوٹا بیج بوئے گئے، جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا تھا.فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیر نے پاکستان ٹوٹنے کا بیج بویا اور جو بیج بویا گیا اس نے ملک کے 2 ٹکڑے کردیئے ،تمام قوتوں کے باوجود ناانصافیاں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا میں نوجوانوں سے مخاطب ہوں، 1977 میں الیکشن ہوتے ہیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ یہ صاف شفاف نہیں تھے، اسکے بعد ایک الائنس بنا تھا،ایک طرف الزامات لگائے جا رہے تھے کہ الیکشن منصفانہ نہیں تھے، اسکے باوجود دونوں مخالفین ٹیبل پر بیٹھے، تاریخ اس بات کی گواہ ہے، کہ ان کا معاہدہ ہو چکا تھا دستخط کی دیر تھی کہ ایک اور شخص نے پھر وار کیا جمہوریت پر، آئین پر، یہ چار جولائی 1977 کا دن تھا، ایک شخص پوری قوم پر مسلط ہو گیا،اور 11 سال حکومت کی اگست 1988 تک اور پھر وہ ایک جہاز کے حادثے میں وفات پا گیا، اس سے پہلے عدالتوں میں کیسز آئے، چیلنج ہوئے ، بھٹو کو سزائے موت دی گئی، ریفرنڈم میں جب بھی کسی ڈکٹیٹر نے کروایا تو اسکا ریزلٹ 98 فیصد ہوتا ہے، پولنگ بوتھ خالی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی نتائج 98 فیصد، لیکن جب الیکشن ہوتے ہیں جلسے، لمبی لائنیں، انتخابی مہم لیکن نتائج 60 فیصد سے اوپر نہیں جاتے، غور کریں یہ نتیجہ کیسے نکل آتا ہے،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ غلط اقدامات کو سراہتی چلی گئی جس پر مجھے شرمندگی ہوتی ہے، 99 میں ایک اورسرکاری ملازم نے ٹیک اوور کر لیا، پھر کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے، زیادہ پرانی باتیں نہیں، انہوں نے دو بار وار کیا، ایک 99 میں اور دوسرا 2007 میں، جب ایمرجنسی نافذ کی ، جس کو تکلیف ہوتی ہے وہ عدالت پر دستک دیتا ہے لیکن ایک کیس رونما ہوا، عجیب سا کیس تھا، اگر کوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا چاہے سب جج فیصلہ کرلیں، بھاری دل اور تکلیف کے ساتھ مجھے یہ بات ماننی پڑ رہی ہے اور کسی انکار کی گنجائش بھی نہیں کہ میرے ادارے کا ماضی پہلے دن سے آج تک داغدار ہے میری پاس اپنے ادارے کی ایک بھی درخشاں روایت نہیں جسے فخر سے بیان کر سکوں ہم نے ہر آمر کا ساتھ دیا اور جمہوریت کے خلاف استعمال ہوئے۔ ازخود نوٹس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے، 184 تین کے تحت سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جاتی ہے۔ جب سے سپریم کورٹ کا جج بنا کبھی اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار نہیں کیا۔ ازخود نوٹس کے استعمال سے متعلق قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے، شق 184 تین صرف مظلوموں کیلئے ہے، کسی کو فائدہ دینے کیلئے نہیں۔ اس شق کے تحت چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو مشترکہ فیصلہ کرنا چاہئے۔ نمبر گیم سے سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ہر عدالت سے مختلف آراء سامنے آتی ہیں، سب کی رائے کا احترام کرنا چاہئے

آئین ہماری اور پاکستان کی پہچان ، آئین کے محافظ ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف کیورواٹیو ریویو،اٹارنی جنرل چیف جسٹس کے چمبر میں پیش 

حکومت صدارتی حکمنامہ کے ذریعے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجے،امان اللہ کنرانی

9 رکنی بینچ کے3 رکنی رہ جانا اندرونی اختلاف اورکیس پرعدم اتفاق کا نتیجہ ہے،رانا تنویر

چیف جسٹس کے بغیر کوئی جج از خود نوٹس نہیں لے سکتا،

 انصاف ہونا چاہیئے اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے،

 عدالتوں میں کیسسز کا پیشگی ٹھیکہ رجسٹرار کو دے دیا جائے

Leave a reply