پاکستان دیکھتا رہ گیا،”تبدیلی” سعودی عرب میں آ گئی، تحریر:عفیفہ راؤ

0
55

پاکستان دیکھتا رہ گیا،”تبدیلی” سعودی عرب میں آ گئی، تحریر:عفیفہ راؤ

گزشتہ کچھ دنوں سے سعودی عرب سوشل میڈیا پر کافی ٹرینڈ کر رہا ہے ہر ایک چینل اور ویب سائیٹ پر سعودی عرب سے متعلق دو خبریں بھی خوب گردش کر رہی ہیں۔ ان میں ایک خبر تو حال ہی میں ہونے والے میوزیکل کانسرٹس ہیں اور دوسری خبر تبلیغی جماعت پر لگنے والی پابندی ہے۔ لیکن ان کے علاوہ ایک تیسری خبر بھی ہے جس پر ابھی زیادہ بات نہیں کی جا رہی اور وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی رہنما سید ابوالاعلی مودودی سمیت دیگر کئی مصنفین کی کتابیں سعودی حکومت نے لائبریریوں سے ہٹانے کی ہدایت کر دی ہے۔لیکن ان دنوں خبروں کے حوالے سے یہ بات میری سمجھ سے بالکل باہر ہے کہ لوگ اتنا حیران کیوں ہیں۔ سوشل میڈیا پر اتنا واویلا کیوں ہو رہا ہے۔ سعودی عرب میں یہ حالات کوئی ایک مہینے، ایک ہفتے، ایک دن یا ایک رات میں تو پیدا نہیں ہوئے ہیں جو کہ آپ سب اتنا پریشان ہیں۔یہ سب تو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030کا حصہ ہے۔ اور جب سے وہ ولی عہد بنے تھے اس طرح کی تبدیلیاں تو تب سے ہی آہستہ آہستہ سعودی ماحول کو حصہ بننا شروع ہو گئیں تھیں اور ابھی اور بہت سی تبدیلیاں ہیں جو کہ آنے والے وقت میں ہم دیکھیں گے کہ کیسے سعودیہ عرب کو بالکل بدل دیا جائے گا۔

وہ سعودی عرب جو کبھی مکہ، مدینہ اور اپنی اسلامی روایات کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا آنے والے چند سالوں میں سعودی عرب اپنی Modernizationاور ترقی کی وجہ سے پہچانا جائے گا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ جمعہ کے روز سعودی عرب کی ایک بڑی جامع مسجد میں ایک خطبہ دیا گیا۔ جس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ۔۔۔سعودی عرب کا ملک ایک ہی جماعت اور راستے پر چل رہا تھا کہ باہر سے کچھ جماعتیں آئیں، اس ایک جماعت اور ایک مذہب پر چلنے والے لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے۔ ان معروف جماعتوں میں سے ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جو اپنے آپ کو اس ملک میں احباب کے نام سے پکارتے ہیں۔اس جماعت کی اصل ہند یعنی برصغیر میں ہے۔ جماعت تبلیغ پیغمبر اسلام کے کئی طریقوں کے مخالف چلتے ہیں۔ یہ جماعت بغیر علم کے دعوت کے لیے نکلتی ہے۔ یہ اللہ اور پیغمبر اسلام کے طریقے کے برخلاف ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس سے دہشت گرد گروپ بھی پیدا ہوئے۔ ان کے ساتھ چلنے والے لوگ علم کی کمی کا شکار ہو کر تکفیری جماعتوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔اسی وجہ سے دہشت گرد جماعتوں کے لوگ جو کہ سعودی عرب کی جیلوں میں بند ہیں، ان کے بارے میں تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ پہلے تبلیغی جماعت میں شامل تھے۔ اس ملک یعنی سعودی عرب کی فتوی دینے والی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ اس جماعت یعنی تبلیغی جماعت یا احباب کے ساتھ شریک ہونا جائز نہیں ہے۔ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی دعوت کو قبول نہ کریں۔ یہ جماعت اور اس جیسی جماعتیں ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گی۔ یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔یہ الفاظ ایک خطبے کے ہیں جو کہ سعودی عرب ی جامع مسجد میں دیا گیا لیکن میں آپ کو بتاوں کہ باقی تمام مسجدوں میں بھی تقریبا یہ ہی بات کی گئی کیونکہ آپ سب کو معلوم ہے کہ سعودی عرب میں حکومت کی طرف سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں اور اسی کے مطابق جمعہ کی نماز میں خطبہ دیا جاتا ہے۔اور یہ بات صرف مساجد میں دئیے جانے والے خطبات میں ہی نہیں کی گئی بلکہ سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھی سعودی عرب میں جمعے کے خطبے میں تبلیغی جماعت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی اپیل کی تھی۔

ویسے تو میں آپ کو بتاوں کہ تبلیغی جماعتوں سے سعودی حکام کبھی بھی بہت زیادہ خوش نہیں تھے لیکن اب ان پر اس طرح کی پابندی لگانا یا ان کو دہشت گردوں کے ساتھ ملانے کی ابت اس لئے کی جارہی ہے کیونکہ سعودی عرب کے اندر بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہیں جن کی ایک مثال حالیہ ہونے والے میوزیکل کانسرٹس ہیں تو ان حالات میں محمد بن سلمان یہ نہیں چاہتے کہ سعودی عرب میں کوئی ایسی تنظیم یا جماعت ہو جو کہ ان کی پالیسیوں پر تنقید یا مخالفت کی وجہ بن سکے۔اور جہاں تک کانسرٹس کی بات ہے تو سعودی عرب میں سلمان خان کے کنسرٹ پر جو لوگ شور مچا رہے ہیں ان کو میں بتا دوں کہ سلمان خان کے کنسرٹ سے چند دن پہلے چھ دسمبر کو وہاں Famous international singer Justin bieberکا بھی کنسرٹ ہوا تھا۔ جس میں اس کی مسز مشہور ماڈل Hailey Bieberبھی اس کے ساتھ تھیں۔ جس میں تقریبا ستر ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔Justin beiberکے بعد اب سلمان خان کا کنسرٹ ہوا جس میں شلپا شیٹھی، جیکولین فرنینڈس اور کئی دوسرے فنکاروں نے بھی پرفارم کیا تھا۔ اور سلمان خان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی خاص فرمائش اور دعوت پر ریاض میں پرفارم کرنے کے لئے آئے تھے۔ ان کے اس ٹور کو دبنگ ٹور کا نام دیا گیا۔اور اس کنسرٹ میں 80,000لوگوں نے شرکت کی۔ سوشل میڈیا پر بھی اس وقت اس کنسرٹ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ کنسرٹ سے پہلے سلمان خان کو اعزاز دینے کے لیے اس کے ہاتھوں کا نقش بھی لیا گیا تھا جو ریاض کی مصروف ترین شاہراہ پر نصب کیا جائے گا۔اور اس سب کو نام دیا گیا ہے روشن خیالی کا۔۔ اس طرح کے ایونٹس منعقد کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب روشن خیالی کی جانب بڑھ رہا ہے۔اور تبلیغی جماعت پر جو پابندی لگائی گئی وہ بھی اسی تمام کاروائی کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف Justin beiberکا کانسرٹ ہو رہا تھا دوسری طرف اسی دن ہی تبلیغی جماعتوں پر دہشت گردی کا ٹیگ لگایا جا رہا تھا۔اور ان تبلیغی جماعتوں کی مخالفت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سعودی عرب میں داخلے اور کام کے لئے جو اجازت نامہ دیا جاتا ہے جس کو ویزا یا اقامہ کہتے ہیں تو اس میں دعوت و تبلیغ کی کوئی کیٹیگری ہی نہیں ہے یعنی سعودی عرب میں دعوت و تبلیغ کے لیے داخلے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی اس مقصد کے لئے کوئی ویزہ یا اقامہ جاری کیا جاتا ہے۔اور اگر کوئی انسان سعودی عرب جا کر اپنے اقامے یا ویزا میں دیے گئے کسی بھی کام سے ہٹ کر کچھ اور کرتا ہے تو یہ قانونی طور پر جرم ہے اس انسان کو فوری طور پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔اور تبلیغ تو دور کی بات ہے اب تو اسلامک اسکالرز کی کتابوں پر بھی پابندی لگ گئی ہے۔ سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے تعلیمی اداروں کو نوٹس جاری کئے ہیں کہ اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالااعلی مودودی مصری عالم دین یوسف القرضاوی سمیت دیگر کئی مصنفین کی 80 کتابیں لائبریریوں سے فوری ہٹائی جائیں۔ اور تمام ادارے اپنی لائبریریوں سے یہ کتابیں ہٹا کر دو ہفتوں کے اندر رپورٹ بھی جمع کروائیں۔

محمد بن سلمان بظاہر تو اس تمام معاملے کو روشن خیالی کا نام دے رہے ہیں لیکن میں آپ کو بتاوں کہ ان تمام فیصلوں کے پیچھے دو اہم وجوہات ہیں۔ایک وجہ تو امریکہ اور انڈیا کے ساتھ گہری دوستی اور رابطے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ تبلیغی جماعت پر پابندی کا سلسلہ انڈیا سے شروع ہوا تھا۔ گزشتہ سال کرونا کی آڑ لیکر مودی سرکار نے تبلیغی جماعت پر پابندی لگائی تھی۔ حالانکہ کمبھ کا میلہ جس میں کروڑوں لوگ شرکت کرتے ہیں اس پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی لیکن تبلیغی جماعت والوں پر پابندی بھی لگائی گئی ان کے لوگوں کو مارا پیٹا بھی گیا تھا جیل میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔ اور اب یہی کچھ سعودی عرب میں ہونے جا رہا ہے۔ اور یہ تو صرف ایک مثال ہےاس کے علاوہ بھی آپ کو یاد ہوگا کہ اسی سال مئی میں انڈین میڈیا میں اس بات پر خوب جشن منایا گیا تھا کہ محمد بن سلمان نے مودی سرکار کی محبت میں رامائن اور مہا بھارت کے علاوہ یوگا اور آیوروید جیسے ہندوستانی ثقافتی عناصر کو اسکولوں کے نصاب کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ نریندر مودی کو سعودی عرب کے دورے پر بلا کر شاہی محل میں سعودی عرب کے سب سے بڑے سول اعزاز شاہ عبدالعزیز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔حالانکہ تبلیغی جماعت کے حوالے سے میں آپ کو بتاوں کہ تبلیغی جماعت کا کوئی بھی کام خفیہ یا پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ لوگ نہ تو سیاست میں ملوث ہوتے اور نہ ہی اس جماعت کے لوگ کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کے کارکن یا رہنما ہوتے ہیں۔ نہ ہی ان کا کوئی سیاسی، معاشی یا معاشرتی ایجنڈا ہوتا ہے اور یہ ہر ایک کو اپنی صفوں میں قبول کرتے ہیں۔ یہ صرف اسلام کے معاملات کی بات کرتے ہیں جس میں لوگوں کو کلمہ، نماز، عربی میں دعائیں اور قران سکھانا شامل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، انڈیا، افریقہ اور یہاں کہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی پچھلے چند برسوں میں تبلیغی جماعت بہت مقبول ہوئی ہے۔ اور انڈیا کی محبت کے علاوہ جو دوسری بڑی وجہ ہے وہ پیسہ ہے۔ محمد بن سلمان کو اپنا نیوم سٹی بنانے کے لئے بہت پیسے کی ضرورت ہے اور اس کو اب نظر آ رہا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت جس طرح سے فروغ پا رہی ہے تو مستقبل میں سعودی عرب کی تیل کی صنعت بری طرح متاثر ہونے والی ہے۔
اس لئے محمد بن سلمان چاہتا ہے کہ آنے والے سالوں میں اپنی تجارت اور معیشت کا انحصار تیل کے علاوہ دیگر ذرائع پر کریں۔ ویژن 2030 کے تحت اگلے آٹھ سالوں میں سعودی عرب کو معاشی اور تجارتی مرکز بنا دیا جائے۔ ریاض میں بھی اب نائٹ کلب، سینما ہال اور ریستوران کھول کر انہیں ٹوکیو، لندن اور نیویارک کے برابر کھڑا کیا جائے۔ اس طرح کے کنسرٹ کروا کر اور سیاحت کو فروغ دے کر خوب پیسہ کمایا جائے۔اس لئے اب آپ کو آنے والے دنوں میں سعودی عرب کے حوالے سے ایسی خبریں خوب سننے کو ملا کریں گی اس لئے ان پر حیران ہونا چھوڑ دیں۔ مکہ اور مدینہ سے جو بحیثیت مسلمان ہماری عقیدت ہے اس کو الگ رکھیں اور سعودی حکومت کے معاملات کو الگ کیونکہ اب ان کا مقصد اسلامی تعلیمات اور روایات کی پاسداری کرنا نہیں بلکہ صرف اور صرف پیسہ کمانا اور انڈیا اور امریکہ جیسے ممالک کے ساتھ اپنی دوستیاں بنھانا ہے۔

Leave a reply