وطن عزیز میں ایک بار پھر سیاسی شور، جلسوں اور ممکنہ نئی تحریک کی باز گشت گونج رہی ہے۔ مگر اس شور میں ایک عجیب سی خاموشی بھی سنائی دیتی ہے ایک ایسی خاموشی جو سیاسی کمزوری، قیادت کے بحران اور عوامی بے اعتمادی کی کہانی سناتی ہے۔ سوال یہ ہے آج کی تحریکیں ماند کیوں پڑ گئی ہیں؟ اور وہ کون سی کڑیاں ٹوٹ چکی ہیں جن سے کبھی سیاسی تحریکیں طاقت حاصل کرتی تھیں؟ سچ یہی ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ قیادت کا بحران ہے وہ عظیم، قدآور، نظریاتی رہنما اب ناپید ہیں جن کی زبان میں اثر تھا، جن کے قدموں میں عوام کی طاقت تھی اور جن کے فیصلے ذاتی نہیں بلکہ قومی مفاد کی علامت ہوتے تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قوم ایک مقصد پر اگھٹی ہوئی اس کی قیادت کسی نہ کسی مضبوط شخصیت کے ہاتھ میں تھی۔ ایوب کے خلاف تحریک بھٹو کا عوامی ابھار ہو، ایم آر ڈی کی جدوجہد ہو یا 2007 کی وکلاء تحریک ہر دور میں ایسی شخصیات موجود تھیں جن کا قد، ویژن اور اثر موجودہ سیاست میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ نوابزادہ نصراللہ مرحوم، خان ولی خان مرحوم، قاضی حسین احمد مرحوم، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، مفتی محمود اور دوسرے کئی سیاستدان یہ سب وہ نام تھے جن کے ہوتے سیاسی تحریکیں صرف شور نہیں ہوتیں ایک سمت رکھتی تھیں۔ ایک حدف ہوتا تھا، سب سے بڑھ کر ایک قیادت ہوتی تھی، آج کا منظر نامہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ تحریکیں موجود ہیں، نعروں کی گونج ہے، پریس کانفرنسیں ہیں، سوشل میڈیا کا شور ہے، مگر قائد نہیں۔ ماضی کے رہنما نظریات رکھتے تھے آج کی سیاست شخصیات اور ٹرینڈز پر کھڑی ہے اِدھر ایک بیان، اُدھر ایک بیان، اِدھر ایک کلپ، بس یہی سیاست رہ گئی ہے۔
سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات کا نہ ہونا، خاندانوں اور محدود حلقوں کا قبضہ، رہنما سازی کے عمل کو بالکل مفلوج کر چکا ہے۔ دوسری جانب جب جمہوری سلسلہ بار بار ٹوٹے تو سیاسی قیادت درخت کی طرح جڑیں کبھی مضبوط نہیں بنا سکتی۔ جب سیاست اصول سے ہٹ کر مفاد، لوٹے بازی اور وزارتوں کے گرد گھومنے لگے تو عوامی لیڈر کم اور سیاسی دکاندار زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ قیادت وہ ہوتی ہے جو گلی، محلوں، یونین کونسلوں اور عوامی جدوجہد سے ابھرے، نہ کہ جھوٹے فالورز سے۔ آج کی سیاسی تحریکیں شور تو بہت کرتی ہیں مگر روح سے خالی ہیں، وجہ ایک ہی ہے قیادت کا بحران۔ وطن عزیز اس وقت ایک ابھرتے ہوئے سیاسی خلاء کے بیچ کھڑا ہے ایسا خلاء جسے پر کرنے کے لیے نئے قدرآور رہنماؤں، نئی سیاسی سوچ اور عوامی اعتماد کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسی قیادت سامنے نہیں آتی وطن عزیز میں کوئی نئی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی صرف آوازیں رہیں گی اثر نہیں ہوگا۔ قوموں کی تقدیر یاد رکھیے جلوسوں سے نہیں بدلتی، نظریاتی قیادت اور مضبوط سیاسی روایت سے بدلتی ہے، وطن عزیز اسی قیادت کا منتظر ہے۔








