الحمدللہ ۔۔ پاکستان کا عظیم کارنامہ۔، صدیوں کا سفر لمحوں میں طے،تہلکہ خیز انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ بھارت اتنا سامان اسلحہ خرید رہا ہے اگر جنگ ہو تی ہے تو کیا پاکستان بھارت کا مقابلہ کر لے گا، ایک جنگ ہوتی ہے اور ایک نعرے بازے ہوتی ہے، میزائل اور ایئرپاور اہم ہیں، بھارت رافیل چھوڑ کر جو مرضی کر لے پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی دنوں سے آپ پاکستان اور چین کی ائیر فورسز کی ایکسر سائزز کے بارے میں سن رہے ہیں جو سات دسمبر کو شروع ہوئی اور لیٹ دسمبر تک جاری رہیں گی۔ کہنے کو تو یہ ایک روٹین لگتی ہے لیکن دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والی اس شاہین سیریز ایکسر سائز نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ملٹری بیلنس کو upset کر کے رکھ دیا ہے۔ اور پاکستانی ائیر فورس بھارت کے مقابلے میں بہت ایڈوانس ہو گئی ہے اس کی تفصیل میں آپ کو آگے چل کر بتاوں گا۔ دسمبر دو ہزار بیس میں ہونے والی اس ایکسر سائز کو Shaheen ix(9) کا نام دیا گیا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکہ کے دفاعی ماہرین اسے بڑی گہری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ ایکسر سائز ہی ہیں جس کی مدد سے پاکستان نے ستائیس فروری کو بھارت کو سرپرائز دیا، اس کے ریڈار اورCommunication systemکو جام کر دیا تو غلط نہ ہو گا، ابھی نندن کو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ بھارت میں گرا ہے یا پاکستان میں۔ بھارت کے ایک جہاز نے اپنے ہی جہاز یا ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ پاکستان نے بھارت کے communication & radar system کو ایسے مفلوج کر دیا کہ انہیں سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان نے انتہائی ایڈوانس ٹیکنالوجیElectromegnatic warfare attack capability
کا مظاہری کیا تھا اور اپنے جہازوں میں اسے integrated اورair manouver profile میں شامل کر لیا تھا۔ پاکستان ان ایکسر سائزز میں اس سے کہیں زیادہ قابلیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔چین کی ائیر فورس
Electromegnatic warfare میں ایک لیڈینگ کردار رکھتی ہے۔ اور پاکستان کو اس کے ساتھ مل کر کام کرنا اور اس ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنا کوئی عام بات نہیں ہے۔چینی وزیر دفاع کے دورہ پاکستان کےدرمیان فوجی تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لئے ایک نئے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ چینی وزیر دفاع کے دورے اور اس مشق کو خطے میں اہم پیشرفت سمجھا جارہا ہے اور اس دورے کے ایک ہفتہ بعدچینی فضائیہ کا دستہ مشترکہ فضائیہ کی مشقوں کے لیئےپاکستان میں ٹھٹہ کے قریب ائیر بیس پر پہنچا جو بھارتی گجرات اور سمندر کے بہت قریب ہے یہاں پر ایکسر سائز کرنے سے پاکستان نہ صرف بھارت بلکہ سمندر میں بھی آپریشن کرنے کی بہتر صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔اس مشق میں جنگی پائلٹ ، ایئر ڈیفنس کنٹرولرز اور تکنیکی زمینی عملہ پر مشتمل ایئر فورسPLA AF حصہ لے رہی ہے۔ جبکہ دنیا کہہ رہی ہے کہ کرونا کی وبا کے دوران ان مشقوں کا کرنا بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اور ظاہری سے بات ہے اس طرح کی مشقوں کا مقصد اپنے دشمن کی صلاحیتوں پر بر تری حاصل کرنا ہوتا ہے اور پاکستان اور چین کا مشترکہ دشمن کون ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ بہت بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔
پاکستان اور چین نے دو ہزار پندرہ میںStrategic Support Force بنائی اور اس کا کمانڈ اسٹیشن پاکستان اور چین میں موجود ہے۔جوcyber-warfare, high-tech reconnaissance, electronic warfare and psychological warfare سمیت بے تحاشا چیزوں کو ڈیل کرتا ہے اور دونوں فورسز کیcoordinationکو مثالی بناتا ہے، وہ بھی ان ایکسر سائز میں شامل ہوتے ہیں۔

ان ایکسر سائزز کا مقصدelectronic warfare attack capabilitiesکو ایک نئے لیول تک لے کر جانا ہے۔پاکستان کوصرف tectical forceکی بجائے ایک ایسی فورس بنانا جوoperational fieldمیں لیڈ کرادار ادا کریں اور جہاں پر
outcome matterکرتی ہو۔ اور پاکستان ائیر فورس فیصلہ کن کردار ادا کرے جیسے ہمیشہ ماضی میں بھارت کی پٹائی کرتی رہی ہے۔ کیو نکہ جدید دور میں زمینی فوج کی بجائے ائیر فورس فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں جیسے امریکہ نے دنیا بھر میں کیا کہ اس کے ایک بھی فوجی کے زمین پر قدم رکھنے سے پہلے فضائیہ دشمن پر ایسی بمباری کرتی ہے کہ دشمن کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ ان مشقوں میں جو جہاز استعمال ہو رہے ہیں ان میں
China’s fourth-generation Shenyang J-11, Chengdu J-10 multirole fighter aircraft, Chengdu F-7 interceptor اورJF-17 Thunder multirole combat aircraft, شامل ہیں۔جبکہ دہائیوں تک پاکستان ائیر فورس کی backbone سمجھا جانے والا۔ ایف سولہ ان مشقوں میں استعمال نہیں کیا گیا تاکہ امریکہ کو کسی بھی قسم کی بات کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ امریکہ اس حوالے سے اکثر الزام لگاتا رہا ہے کہ چین اس کی ٹیکنالوجی چوری کر سکتا ہے۔اگر میں آپ کوelectromegnatic spectrumکے بارے میں آسان الفاظ میں سمجھاوں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج سات طرح کی شعاعیں پھینکتا ہے اور ہماری زندگی اسی کے گرد گھومتی ہے۔radio wave ،micro wave
infrared wavev،isibile light wave .ultra light wavesیہ سب ایک جیسی ہیں لیکن ان کی wave length میں فرق ہے اور ان شعاوں کے مجموعہ کوہم air, land, sea domainمیںconnectivityکے لیئے استعمال کرتے ہیں۔
چاہے رافیل ہو یا f35 اسconnectivityکے بغیر سب بیکار ہے اور اس فیلڈ میں قابلیت اور اسٹریٹجی ہی سب کچھ ہے۔یہ آپ کوwar fighting communication situation awarness میں مدد دیتی ہے۔

یہ خطرے سے نکلنے والی انرجی کو کئی سو کلومیٹر دور سے locate کرتی ہےElectronic Support Electronic attackاورelectronic protection فراہم کرتی ہے یعنی دشمن کے اٹیک سے بچانا۔اگر بھارت کہ پاس یہ قابلیت ہوتی تو اسےپاکستان کے اٹیک سے کسی حد تک protectionمل سکتی تھی اور کمیونیکیشن جام نہ ہوتی اور ریڈار کام کرنا نہ چھوڑتے۔پاکستان center of artificial intellengence & computing پر کا م کر رہا ہے اور یہ
information wave form signals from radar اور بہت سی چیزوں کو خودہی سمجھ کر خود اپلائی کر دیتا ہے،یہ سینسر فیوژن ٹکنالوجی تیار کرنے میں مدد دے گا ، جو ریڈار، کیمرہ اور دیگر کئی سینسرز کی معلومات کو یکجاکرتا ہے اور اس میں بیلینس کرتا ہے۔ اس میں بگ ڈیٹا ، مشین لرننگ ، ڈیپ لرننگ ، prediction analysisnatural language processingشامل ہیں۔ اصل گیم یہ ہے کہ اسے اپلائی کیسے کرناہے جو پاکستان اور چین مشقوں کے زریعے کر رہے ہیں۔یہ پاکستان کی ترقی میں ایک Quantam jumpہے۔ پاکستان اس ٹیکنالوجی کو اپنے ڈرونز، multi altitute UAV میں بھی استعمال کررہا ہے۔پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے ہی EW & Radar lab
کا افتتاع کیا ہے۔artificial intelligence پر کام جاری ہےایک وقت آئے گا جب پاکستانی ربوٹ انسانی مدد کے بغیر کام کریں گے۔

چین اور پاکستان ۔ اسٹریٹجک شراکت داری میں1950 کی دہائی سے ترقی یافتہ دفاعی ، اقتصادی اور اسٹریٹجک تعاون سے لطف اندوز ہو رہےہے۔ دفاعی تعاون ،اعلی سطحی فوجی تبادلے ، مشترکہ مشقوں ، اہلکاروں کی تربیت ، مشترکہ دفاعی پیداوار اور دفاعی تجارت پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ دونوں ہمسایہ ممالک دفاعی شراکت داری ، مشترکہ منصوبوں بالخصوص ہوائی جہاز ، سب میرینز ، ٹینکوں اور دیگر فوجی سازو سامان کی تیاری سمیت وسیع تر تعاون کر رہے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیئے امریکہ کا محتاج نہیں رہا اگر پاکستان ابھی تک امریکہ پر دفاعی انحصار کرتا رہتا تو موجودہ حالات میں پاکستان کو ناقابل تسخیر نقصان پہنچنا تھا۔کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ اپنا مفاد دیکھا ہے اور اب اسے بھارت کے ساتھ ملنے میں مفاد نظر آ رہا ہے۔پاک چین تعاون کی خبریں امریکہ اور پاکستان کے مابین آہستہ آہستہ خراب ہوتے تعلقات پر حاوی رہتی ہیں۔
اس مشق کا تازہ ترین ایڈیشن مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول کے ساتھ جاری بھارت چین کشیدگی کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ جس میں امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔الحمد اللہ اللہ پاک فضائیہ دنیا کی واحد فضائیہ ہے جو دشمنوں پر مکمل فضائی فوقیت رکھتی ہے۔لیکن اب جو کام پاکستان نے کر دیا ہے اس نے پاک فصائیہ کو اپنے دشمن کے مقابلے میں ناقابل تسخیر کر دیا ہے۔

Shares: