پاکستان کی نازک صورتحال اور ہماری ذمہ داری،تجزیہ، شہزاد قریشی

0
40
shehzad qureshi

پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہ وہ جملہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام سنتے آئے اور اب شیر آیا شیر آیا کے مصداق ملک واقعی اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور ایک ہم اور ہمارے حکمرانوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی عملی اقدامات اٹھائے؟ کیا حکمرانوں ، اعلیٰ بیورو کریسی کے افسران، اعلیٰ اور نچلے درجے کے پولیس افسران ، سول انتظامیہ کے افسران ، ریونیو کے افسران، نے کرپشن سے توبہ کر لی؟ کیا ملک کی بڑی مچھیلوں نے رضاکارانہ طور پر زیادہ ٹیکس دینے کا اظہار کیا؟ کیا ملک میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان افسران نے اپنی ضرورت سے زیادہ تنخواہ کم لینے کے جذبے کا اظہار کیا؟ کیا ہم نے گھاس کھا کر وطن کی آن بچانے کا عہد کیا؟

ان تمام سوالات کا جواب اگر نہیں میں ہے تو ہم جس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں وہ ایک بھیانک انجام ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2013ء کے عرصے میں جب یورپ میں معاشی بحران آیا تو جرمنی کے تاجروں اور صنعتکاروں نے حکومت کو درخواست کی کہ ان پر ٹیکس زیادہ لگایا جائے حال ہی میں کینیڈا میں ایک شعبے کے ملازمین نے حکومت سے استدعا کی کہ ان کی تنخواہیں ان کی ضروریات سے زیادہ ہیں کم کی جائیں آج ملک میں کروڑوں کے پلاٹس، لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے موجود ہیں اعلیٰ انتظامی اور تکنیکی پوسٹوں پر سفارشی بنیادوں پر تعینات کئے جا رہے ہیں وزارتوں اسمبلیوں میں اور تکنیکی شعبوں میں محکمہ انکم ٹیکس و مالیات میں کرپٹ رشتہ داروں کو کھپایا جاتا ہے اور رونا رو رہے ہیں کہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کریں اعلیٰ سیاستدانوں ، حکمرانوں ، مقتدر عہدوں پر فائز افسران سے لے کر تمام دفاتر میں براجمان چھوٹے بڑے ملازمین تک اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جاکر حلف برداریاں آن ریکارڈ کریں کہ وہ بابائے قوم کے اقوال کے مطابق حقیقی طور پر ملک و قوم سے وفادار رہیں گے اور کوئی کرپشن ، اقربا پروری، سفارش نہیں کریں گے اور اس کے بعد آئی ایس آئی اور آئی بی اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے تمام وزراء، مشیران، سول و ملٹری افسران کی کڑی نگرانی کی جائے اور ملکی مفاد کیخلاف کام کرنے کے مرتکب عہدیداروں کے لئے سخت سزائیں دی جائیں ایسا نظام لایا جائے تاکہ کوئی بھی پاکستان کے ستقبل سے کیلنے کا تصور بھی نہ کر سکے۔ آج ملک کے جو حالات ہیں اس کارخیر میں سب کا کردار ہے۔

Leave a reply