پاکستان کی سیاسی جماعتیں قومی جماعتیں ہوا کرتی تھیں آج صوبوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اگر جمہوریت کو پائیدار بنانا ہے تو تنظیم سازی، باضابطہ تربیت اور شفاف انتخابی عمل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے
سیاسی جماعتیں قومی کہلانے کے قابل تب ہوں گی جب ان کی تنظیمیں تمام صوبوں اور ضلعوں میں فعال ہوں گی
سیاسی و مذہبی جماعتوں کا قومی اداروں پر چڑھ دوڑنا جمہوریت کو کمزور کرتا ہے جس کی تازہ مثال وزیر اعلٰی کے پی کے کی جذباتی تقریر ہے
تجزیہ شہزاد قریشی
جنوبی ایشیائی ملک خاص طور پر بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں پچھلے چند سالوں میں جمہوری عمل کمزور ہوتا دیکھا جا رہا ہے۔ یہ مثالیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے وارننگ ہے۔ اگر ملک کی سیاسی جماعتوں نے منظم طریقے سے نیچے تک مضبوط اندرونی جمہوریت پر توجہ نہ دی تو قومی سیاست میں ان کی صلاحیت کمزور پڑ سکتی ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں قومی جماعتیں ہوا کرتی تھیں آج صوبوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ بنگلہ دیش کی صورتحال ایک دہائی میں عوامی حکمرانوں کے سیاسی خلا، اظہار رائے اور انتخابی مقابلے جیسے عناصر ظاہر ہوئے جن کے باعث جمہوریت کمزور دکھائی دیتی ہے۔ انتخابات میں تنازع اور شفافیت کے الزامات لگے۔ سری لنکا کی بھی یہی صورتحال ہے معاشی اور سیاسی بحران کے بعد عوامی احتجاج اور اس کے نتیجے میں طرز حکمرانی میں دیکھی گئی اقتصادی بد انتظامی اور سیاسی مرکزیت جمہوری اداروں کو تیزی سے کمزور کرتی گئی۔ یہی صورتحال نیپال میں دیکھی گئی مسلسل سیاسی عدم استحکام بار بار کابینہ میں تبدیلیاں اور آئینی جمہوری خامیوں نے جمہوری تسلسل کو متاثر کیا۔ اگرچہ بعض اوقات عدلیہ یا پارلیمانی طریقے سے بحال بھی ہوئی، ان ممالک میں مرکزی قیادت اور قائدانہ مرکزیت طاقت کا حد سے زیادہ مرکزیت میں جمع ہونا، ادارہ جاتی کمزوری، آزاد عدلیہ، میڈیا اور سیکیورٹی اداروں میں توازن کمزور ہونا معاشی بد انتظامی، عوامی ناراضگی اور سیاسی بحران نے جنم لیا۔ موجودہ حالیہ سیاسی تاریخ میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی موجودہ حالیہ سیاسی تاریخ میں الگ الگ انداز میں ظاہر ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اگر جمہوریت کو پائیدار بنانا ہے تو تنظیم سازی، ضلعی ڈویژن اور تحصیل سطح پر باضابطہ تربیت اور شفاف انتخابی عمل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ معیشت کی خراب صورتحال، سیاسی عدم استحکام پاکستان کے ملکی نوجوانوں جو پاکستان کا مستقبل ہیں ان میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ ہر جماعت کے آئین میں شفاف امیدوار چننے کے ضوابط، شکایات کے میکنزم اور مدت طے کرنی ہوگی۔ مقامی لیڈرز، ووٹر، رجسٹریشن، انتخابی ضوابط فورم اور ورکشاپس کے انتظامات کرنے ہوں گے۔ پارٹی فنڈنگ کے اخراجات کے باقاعدہ آڈٹ اور عوامی خلاصے پر توجہ دینی ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کو پالیسی سازی، امیدواروں کی نشاندہی اور شفاف الیکشن کرانا ہوں گے۔ نوجوان و خواتین لیڈر شپ پروگرام اور میرٹ پر فیصلے کرنا ہوں گے۔ صرف طاقت حاصل کرنے کے بجائے واضح پالیسی پر ایجنڈا بنائیں اور اس کی پیمائش کریں۔ سیاسی جماعتیں قومی کہلانے کے قابل تب ہوں گی جب ان کی تنظیمیں تمام صوبوں اور ضلعوں میں فعال ہوں گی۔ قیادتوں کو بااختیار بنانے سے عوامی نمائندگی بہتر ہوگی۔ سیاسی جماعتیں صرف حکومت حاصل کرنے پر مرتکز رہیں گی جو تنظیمی کمزوریاں، جمہوریت کے بحران میں بدل سکتی ہیں۔ پارٹی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کے ساتھ شراکت ضروری ہے۔ قطع تعلقی ہمیشہ جنگ زدہ لسانیت مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اندرونی اصلاحات کے بجائے صرف زبانی دعوے کریں تو عوام کا اعتماد کمزور ہوگا جس کے اثرات جمہوریت پر پڑھیں گے۔ تمام سیاسی جماعتیں اگر جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں تو صوبائی، ضلعی سطح کی شاخیں، خود مختار فنڈ ریزنگ اور مقامی نمائندگی کو مضبوط کریں۔ نوجوان و خواتین کی قیادت کی مضبوطی اور پالیسی بیسڈ سیاست قائم کریں تاکہ پاکستان جمہوری تسلسل میں مستحکم رہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کو مستحکم کرنے میں تبھی کامیاب ہوں گی جب وہ عملی اقدامات کریں گی ورنہ پاکستان کی جمہوریت کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اپنے قومی اداروں جس میں پاک فوج جملہ اداروں اور پولیس پر چڑھ دوڑنا جمہوریت کو کمزور تو کر سکتا ہے مضبوط نہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال وزیراعلٰی خیبر پختون خواہ کی تازہ ترین تقریر ہے جسے ایک جذباتی تقریر کہا جا سکتا ہے۔