ماحولیاتی آلودگی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار۔ پاکستانی تاریخ کا پہلا مقدمہ

0
90

مقدمہ کے حقائق
نام مقدمہ-شہلا ضیاء بنام واپڈا ( پی ایل ڈی 1994سپریم کورٹ 693)
سال 1992 میں اسلام آباد کے چار رہائشیوں نےٖ، ایف 6/1 اسلام آباد کے رہائشی علاقے میں گرڈ اسٹیشن کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا-اس ضمن میں ایک شکایتی خط 15 اگست 1992 کو چیئرمین واپڈا کے نام ارسال کیا گیا جس میں رہائشیوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ گرڈ اسٹیشن کی تعمیر کے لیے ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائنیں نصب کی جائیں گی اور برقی مقناطیسی فیلڈ کی موجودگی علاقے کے رہائشیوں خاص طور پر بچوں ، کمزوروں اور دھوبی گھاٹ خاندانوں کے لئے ایک سنگین خطرہ ثابت ھوگی- مزید یہ کہ بجلی کی تنصیبات اور ٹرانسمیشن لائنیوں کا وجود گرین بیلٹ کے لیئے نقصان دہ ھونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مظر صحت ھے-
شہریوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ کسی بھی رہائشی علاقے میں گرڈ اسٹیشن کی تعمیر اسلام آباد میں نافذالعمل منصوبہ بندی کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ھے جہاں گرین بیلٹس کو ماحولیاتی اور جمالیاتی وجوہات کی بناء پر شہر کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے جولائی 1991 سے گرڈ اسٹیشن کی تعمیر کی بابت مختلف احتجاجی کوششوں کا بھی حوالہ دیا اور واضع کیا کہ اس ضمن میں کوئی قابل اطمینان اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ یہ خط ایل یو سی این کے ڈاکٹر طارق بنوری نے انسانی حقوق کے معاملے کے طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو قانونی جائزہ لینے کے لئے بھیجا جس میں دو سوالات اٹھائے گئے –
اول یہ کہ کیا کسی سرکاری ایجنسی کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ اپنے اقدامات سے شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالے ؟ اور
دوم یہ کہ کیا حلقہ بندی کے قوانین میں شہریوں کودیئے گئے حقوق شہریوں کی رضامندی کے بغیر واپس لیے جا سکتے یا ان قوانین میں ردوبدل کیا جاسکتا ھے ؟
اس معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں شہریوں کی زندگی اور صحت کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا جاسکتا تھا جواب دہندگان کو نوٹس جاری کیا گیا- جواب دہندگان نے موقف اختیار کیا کہ ریکارڈ کے مطابق گرڈ اسٹیشن کی مجوزہ جگہ کو گرین ایریا کے طور پر نامزد نہیں کیا گیا ہے- جواب دہندگان نے مزید استفسار کیا کہ مجوزہ جگہ قریب واقع مکانات سے تقریبا چھ سے دس فٹ کی ڈپریشن میں ہےاور علاقے میں رہائش گاہوں سے کم از کم 40 فٹ دور شروع ہوتی ہے لہذا گرڈ اسٹیشن کی تعمیر سے رہائشیوں کے لیئے قدرتی منا ظر متاثر نہ ھوں گے۔ مزید کہا گیا کہ یہ اخذ کرنا بلکل بےبنیاد ھے کہ ٹرانسمیشن لائینوں اور گرڈ اسٹیشن سے 132 K.V. کی ہائی ولٹیج پیداوار کسی طرح بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ جواب دھندگان نے استفسار کیا کہ اسی طرح کے 132 کے وی گرڈ اسٹیشن گنجان آباد علاقے راولپنڈی ، لاہور ، ملتان اور فیصل آباد میں قائم کیے گئے ہیں ، لیکن صحت کی خرابی کی بابت کوئی اطلاع موصول نہیں ھوئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان گرڈ اسٹیشنوں میں کام کرنے والے اور گرڈ اسٹیشنوں کے احاطے میں رہائش پذیر لوگوں سے ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ یہ کہ تنصیبات کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ اہلکاروں اور املاک کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ مزید کہا گیا کہ انسانوں، جانوروں اور پودوں کی زندگیوں پر 5000 کے وی سے زیادہ وولٹیج کی اضافی ہائی وولٹیج لائنوں کے برقی مقناطیسی اثرات ترقی یافتہ ممالک میں زیرِ مطالعہ ہیں ، لیکن اس طرح کے مطالعے کے نتائج کی اطلاعات متنازعہ ہیں۔
مقدمہ کا فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وکلاءفریقین مقدمہ کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل (9) کے تحت شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اُنھیں الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ یا کسی بھی گرڈ اسٹیشن ، فیکٹری ، بجلی گھر یا دیگر ایسی تنصیبات و تعمیرات سے پیدا ہونے والے خطروں سے بچایا جائے۔
آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسے معاملے کو ذیر غور لائے جہاں شہریوں کی ایک کثیر تعداد کی زندگی و صحت کے متاثر ہونے کا احتمال ہو ۔ مذید یہ کہ کیس میں اُٹھائے جانے والے مسئلے میں شہریوں کی فلاح و بہبود شامل ہے کیونکہ ملک بھر میں "ہائی ٹینشن لائینوں” کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ کہ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ طرزِ زندگی ، صنعت و تجارت اور روزمرہ معاملات زندگی میں توانائی کا کردار لازم وملزوم ہے ۔ ملک کی معاشی ترقی کا انحصار ذیادہ توانائی کی پیدوار و تقسیم پر منحصر ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ معاشی ترقی اور خوشحالی کے مابین توازن برقرار رکھنے اور ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیئے ایک پائیدار ترقی کی پالیسی اپنائی جائے۔ کوئی بھی ایسی پالیسی بنانے کے لیئے واپڈا کو اپنے گرڈاسٹیشن سے متعلقہ منصوبہ بندی و طریقہ کار کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اور امریکہ کی طرز پر ایسے طریقوں کو اپنانا چاہیے جن کے ذریعے تناﺅ کی اعلیٰ تعداد کو کم کیا جاسکتا ہے۔ واپڈا کو حکم دیا گیا کہ گرڈ اسٹیشن کی تعمیر و تنصیب کے لیئے سائنسی نقطہ نظر اپنانا چاہیے اور سائنسی و تکنیکی معاونین کی مدد لینی چاہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فریقین کی باہمی رضا مندی سے NESPAK کو بطور کمشنر مقرر کیا تا کہ وہ سائینسی وتکنیکی بنیادوں پر گرڈ اسٹیشن کی تعمیر و تنصیب سے متعلق واپڈا کے منصوبے کی جانچ پڑتال کرے اور رپورٹ پیش کرے۔ اس مرحلے پر سپریم کورٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی تمام ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کی پیداور کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں توانائی کی پیدا وار کی ضرورت باقی ممالک کی نسبت زیادہ ہے ۔ لیکن معاشی ترقی کی جستجو میں ایسے اقدامات نہیں اُٹھائے جاسکتے جو انسانی زندگی کے لیئے مہلک ہوں اورماحول کو آلودہ اور تباہ کردیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضع کیا کہ واپڈا نے وزارت پانی و بجلی کی مشاورت سے بجلی کی تقسیم کے لیئے گرڈاسٹیشن کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا ہےلیکن اس منصوبے کو تشکیل دینے کے دوران نہ ہی شہریوں کو سماعت کا کوئی موقع دیا گیا اور نہ ہی علاقے کے رہائشیوں کا موقف سنا گیا ہے۔ واپڈا نے یہ منصوبہ یکطرفہ طور پر تیار کیا ہےجبکہ گرڈ اسٹیشن کی تعمیر سے شہریوں اور علاقے کے رہائیشیوں کی زندگی و صحت متاثر ہونے کا شدید احتمال ہے۔ سپریم کورٹ نے بتایا کہ امریکہ میں ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے پبلک سروس کمیشن کا تقرر کیا جاتا ہے اور عوامی رائے واعتراضات کو سننے کے بعد ایسے منصوبوں کی منظوری دی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا طریقہ کار نہیں اختیار کیاگیا ہے۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں بہت سے گرڈ اسٹیشنوں و بجلی کی ترسیل کے لیئے لائینوں کی تنصیب کی ضرورت ہے لہذا حکومت پاکستان کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ بین الاقوامی سطح پر پہنچانے جانے والے سائینسدانوں و دیگر ممبران پر مشتمل ایک اتھارٹی یا کمیشن تشکیل دے جو کسی بھی گرڈ اسٹیشن کی تعمیر سے متعلق منصوبے کی منظوری دے اور پہلے سے قائم شدہ گرڈ اسٹیشنوں اور بجلی کی ترسیل کی لائینوں کا انسانی زندگی و ماحول پر اثرات کا مطالعہ کرے۔ اگر حکومتِ پاکستان وقت پر ایسے اقدامات اُٹھائے تو مستقبل میں بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
واپڈا نے بحث کے دوران یہ اعتراض اُٹھایا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو آرٹیکل 184 کے تحت یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ کسی بھی علاقے میں گرڈ اسٹیشن کی تعمیر سے متعلق کوئی بھی فیصلہ دے کیونکہ گرڈ اسٹیشن سے متعلق منصوبہ باقائدہ مطالعہ کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ اور گرڈ اسٹیشن و ہائی ٹرانسمیشن لائنوں کے انسانی صحت و زندگی پر اثرات کو پرکھا گیا ہے اور یہ کہ گرڈ اسٹیشن کی تعمیر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے واپڈا کے اعتراض کو رد کرتے ہوئے یہ تجزیہ کیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل (9) کے تحت کسی بھی فرد کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ماسوائے اس کے کہ قانون اس کی اجازت دے۔ لفظ زندگی انسانی وجود کے تمام حقائق کا احاطہ کرتا ہے۔ لفظ زندگی کی تعریف آئین پاکستان میں نہیں دی گئی لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس کی تعریف کو پودوں یا جانوروں کی زندگی یا انسانی زندگی کا پیدائش سے موت تک کےعمل تک محدود کر دیا جائے۔ زندگی میں ایسی تمام تر آسائشیں و سہولیات شامل ہیں جن سے ایک آزاد ملک میں بسنےوالا شہری باعزت طریقے سے قانونی و اآئینی طور پر لطف اندوز ہو سکے۔
مضمون نگار سیدہ صائمہ شبیر سینئر ریسرچ آفیسر سپریم کورٹ آف پاکستان ہیں
syeda_saima@yahoo.com

Leave a reply