کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم ابھی نندن کو پکڑ لیتے ہیں ۔ کلبھوشن یادو کو بھی رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے ہیں مگر دنیا میں ہماری اس طرح سنوائی نہیں ہوتی جیسے ہونی چاہیے ۔ دوسری جانب بھارت کوئی جھوٹا موٹا ڈرامہ بھی کرے تو سب پاکستان کی جانب انگلی اٹھانا شروع ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان کے ساتھ اس سلوک کی وجہ امریکہ ہے ۔ آگے چل کر بڑی تفصیل سے امریکہ کی کارستانیوں بارے بتاتا ہوں ۔ ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں جو گزشتہ کئی دنوں سے ڈرامہ بازی جاری ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ کس کو نہیں پتہ کہ تمام سیاسی جماعتیں ملکی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ۔ اس وقت جو ملک کو مسائل درپیش ہیں یہ حقیقی طور پر امتحان کا وقت ہے ۔

۔ آپ دیکھیں بھارتی فضائیہ کی عمارت پر ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد پاکستان پر الزام عائد کرنے کی بڑی تگڑی کوششیں ہو رہی ہیں مگر کتنے سیاستدان ہیں جنہوں نے اس کا جواب دیا ہے۔ آج بھی اسمبلی میں بڑی تقریریں ہوئی ہیں ۔ شور شرابہ ہوا ہے ۔ مگر کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ مودی اور بھارت کی شرانگیزیوں کا جواب دے دیتے ۔۔ کسی کو خیال نہیں آیا کہ یہ سوال یہ اٹھا دیتے کہ جو ڈرون بھارت دیکھا رہا ہے ۔ یہ چھوٹے والے ڈرون ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ بھی اس کی بیٹری لائف ہوئی تو 40 منٹ سے زیادہ ہوا میں نہیں رہ سکتا ۔ اور یہ والا ڈرون کہیں آگیا ہے تو کہیں سے تو آپریٹ ہو رہا ہوگا ۔ کہیں جا کر یہ گرے گا بھی ۔ اس کو تو ڈھونڈو ۔ مگر کسی کا اپنی سیاست سے ہٹ کر توجہ ہو تو سوال کرے ۔ مودی کو جواب دے ۔ بھارت کے پراپیگنڈہ کا توڑ کرے ۔

۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو نہیں پتہ چلا ۔ کہ لاہور میں جو دھماکہ ہوا اس کے پیچھے بھارت اور RAW کا ہاتھ تھا ۔ قومی اسمبلی میں آج بڑی جذباتی تقریریں ہوئیں ۔ پر اس اہم موقع پر جس کو دنیا میں بھارت پلوامہ ٹو بنا کر پیش کر رہا ہے ۔ ہماری پارلیمنٹ چپ ہے ۔ آخر کیوں ؟۔ لاہور تو لاہور ۔ کراچی سے بھی RAW کا ایک خطرناک نیٹ ورک پکڑ لیا گیا ہے۔ پر کیا قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو یہ توفیق ہوئی کہ حکومت دنیا کو کیوں نہ بتا سکی کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے ۔ ۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کو پاکستان میں کسی دہشت گردی کے واقعے میں بھارتی خفیہ ادارے RAW کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ پاکستان ایسے بہت سے ثبوت اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر پیش کرچکا ہے جن کی بنیاد پر بھارت کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے تھی لیکن افسوس کی بات ہے کہ عالمی برادری اس سلسلے میں کھوکھلے بیانات سے آگے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کرتی۔ بھارت کی پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں یا دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کا سب سے بڑا ثبوت بھارتی بحریہ کا افسر کلبھوشن یادیو ہے جسے پاکستانی سکیورٹی اداروں نے بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔

۔ کیا یہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اردگرد ہونے والے واقعات پر نگاہ رکھے اور ملکی مفاد میں سیاسی اختلافات کو بھلا کر پاکستان کی سلامتی اور بقاء کو اہمیت دیتے ہوئے مثبت طرز عمل اختیار کرے۔ ۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ بھارت مزید ایسی کوئی کارروائیاں کرے تاکہ وہ لاہور دھماکے میں اپنی ایجنسی کے ملوث ہونے کے معاملہ سے دنیا کی توجہ ہٹا سکے ۔ لیکن ہمارے دفتر خارجہ کو اس سلسلے میں پوری توجہ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور بھارت کے خلاف ملنے والے ثبوت مختلف بین الاقوامی فورمز پر پیش کر کے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنا چاہیے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیری قیادت سے ملاقات کا ایک اور ڈھونگ ناکام ہوگیا ہے۔ ۔ نریندر مودی اس وقت عالمی سطح پر شدید دباؤ میں ہیں۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو یا لداخ میں تیار بیٹھی چینی افواج، اگر پاکستان پھنسا ہوا ہے تو مسائل بھارت کے لیے بھی کم نہیں ہیں ۔

۔ کیونکہ امریکہ کی خواہش ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ معاملات کو بہتر بنا کر خطے کا چوہدری بنے اور چین کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہو۔ لیکن بیچ میں کشمیر آجاتا ہے اس لیے یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا کیونکہ پاکستان کا واحد مطالبہ ہے کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے، تبھی مذاکرات کی میز سجائی جاسکتی ہے۔ پر ابھی تک بھارت کو چوہدری بنانے کی امریکہ کی خواہش بہت مہنگی پڑ رہی ہے ۔ ۔ حالت یہ ہے کہ quad اتحاد بنانے کے باجود ایشیا میں امریکی غلبہ زوال پذیر ہے حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کے بعد خطے پرنظر رکھنے کے لیے کوئی ملک اڈے دینے کو تیا رنہیں۔ دراصل ایسے حالات بنانے میں امریکی حماقتوں کا بڑا ہاتھ ہے افغانستان میں بھارتی کردار کی ضد نے چین کو قبل ازوقت مقابلے پر آنے کی راہ دکھائی اور پاکستان کو بھی خفا کر دیا کیونکہ پاکستان نے اپنا مستقبل چین سے وابستہ کر لیا ہے اِس لیے اب یہ توقع کم ہی ہے کہ پاکستان اور امریکہ ماضی کی طرح ایک دوسرے سے شیر وشکر ہوں۔

۔ اس حوالے سے عمران خان نے اپنے حالیہ چینی ٹی وی کو انٹرویومیں واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ نے چین کے خلاف علاقائی اتحاد قائم کیا ہے۔ امریکی اتحاد میں بھارت اور دیگر ممالک شامل ہیں جبکہ پاکستان کے ساتھ نا مناسب رویہ رکھا گیا مغربی ممالک کا پاکستان پر دباؤ ڈالنا نا مناسب ہے۔ پاکستان پر جتنا بھی دباؤ ڈال لیں، پاک چائنہ تعلقات قائم رہیں گے۔ پاک چائنہ تعلقات ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی ہیں۔ ۔ اس لیے اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ امریکہ اور پاکستان میں دوری بڑھتی جا رہی ہے اور آگے یہ مزید بڑھنے کی جانب گامزن ہے ۔ وجہ بھارت ہے ۔ آپ دیکھیں جب افغان سرزمین پر بھارت کی موجودگی چین اور پاکستان دونوں کو قبول نہیں توپھر امریکی کیوں ضد کرتے ہیں سمجھ نہیں آتی ویسے بھی بڑے رقبے، بڑی آبادی اور بڑی فوج کے علاوہ بھارت میں کوئی خوبی نہیں ۔ بھارت وہ میمنا ہے جسے دودھ پینے کے سوا کچھ نہیں آتا پہلے روس اور اب امریکہ کی طرف ہونے میں یہی خصلت کارفرما ہے بھارت کی بے جا حمایت امریکی غلبے کو زیادہ تیزی سے زوال کی گہرائیوں میں پھینک سکتی ہے۔

۔ دراصل دہشت گردوں کی سرکوبی کا علمبردار امریکہ اڈے لیکر اہم ممالک پر نظر رکھناچاہتاہے لیکن پاکستان ایسا کچھ کرنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں۔ دوسرایہ کہ پاکستان اب طالبان کے حمایتی یا مخالف گروہوں کولڑنے کے لیے میدان فراہم نہیں کرنا چاہتا اور وہ اقتدار کا فیصلہ کرنے کا حق افغانوں کو دینے کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ افغان اپنے لسانی یا نسلی مسائل کا حل بھی خود تلاش کریں لیکن امریکی خواہش ایسی نہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں علاقے میں موجود رہنا چاہتا ہے۔

۔ امریکہ کوشاید معلوم نہیں کہ حالات بدل چکے ہیں چین پر ہمسایہ ممالک تکیہ کرنے لگے ہیں جو امریکی اتحاد کی طرف قدم بڑھائے اُسے چین روکنے بھی لگا ہے بنگلہ دیش پر چین اسی نوعیت کا دباؤ ڈال چکا ہے جبکہ کم وبیش تین دہائیوں سے خاموش روس نے بھی عالمی کردار بڑھانا شروع کر دیا ہے اور عالمی امور میں امریکہ مخالف روش پرگامزن ہے۔ ۔ روسی صدر پیوٹن جلد پاکستان کا دورہ بھی کرنے والے ہیں ۔ ۔ ایران پہلے ہی خطے میں امریکہ مخالف بلاک کا پُرجوش حصہ ہے۔ جس سے نتیجہ واضح ہے کہ امریکی غلبے کا زوال شروع ہوگیا ہے اور جلد ہی عالمی منظر نامے پر واحد زمینی سُپر طاقت کے مدمقابل ایک سے زائد نئی طاقتیں آنے کا امکان ہے۔

Shares: