تکنیکی معنوں میں تعلیم سے مراد وہ رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنی اخلاق و عادات اپنی آنے والی نسل کو منتقل کرتا ۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی ” پڑھ ” تھا ۔ حدیث شریف میں علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض کیا گیا ہے ۔ غزوہ بدر میں جب کفار قیدی بناٸے گے تو انہیں اس شرط پر رہاٸی دی گٸی کہ وہ دس دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سیکھا دیں ۔
ترقی یافتہ ممالک میں شرح خواندگی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے تقریبا سو فیصد لوگ ہی تعلیم یافتہ ہیں ۔ اور جب محکوم قوموں ،قرضوں کے بوجھ تلے دبی قوموں کے حالات کا جاٸزہ لیا جاٸے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہیں کہ ان اقوام میں شرح خواندگی انتہاٸی کم ہے اور ایسی قومیں تعلیم پر بالکل بھی توجہ نہیں دیتیں ۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کی اہمیت پر کسی بھی حکومت نے زور نہیں دیا اور نہ ہی تعلیمی بجٹ میں کوٸی خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ۔ مختلف حکومتوں نے ابتداٸی تعلیم مفت تو کر دی لیکن معیار تعلیم بلند نہ کیا جاسکا ۔ پاکستان میں دو طرح کے تعلیمی نظام موجود ہوں ایک امیر کے لیے دوسرا غریب کے لیے ۔ امیر کا بچہ تو پراٸیویٹ سکولوں کی مہنگی ترین فیس ادا کر بہتر تعلیم حاصل کر لیتا ہے جبکہ غریب کا اتنے پیسوں میں پورا مہینہ چولہا جلتا ہے ۔ پاکستان میں سکول میں داخل ہونے والے بچوں کی تعداد بھی سکول چھوڑنے والے بچوں سے کافی کم ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ایک تو والدین کی عدم دلچسپی ہے دوسرا اساتذہ کا سخت ترین رویہ اور مار پیٹ ہے جو غریب کے بچوں کو جانور سمجھ کر جیسا مرضی سلوک روا رکھتے ہیں اور بچہ تنگ آکر خود ہی سکول سے بھاگ جاتا ہے ۔ تعلیمی معیار میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں اساتذہ کو صرف تنخواہ سے غرض ہے ، اس بات سے کوٸی غرض نہیں اس ملک کا مستقبل سنور رہا ہے یا بگڑ رہا ہے ۔ پاکستان میں آج بھی وہی نظام تعلیم راٸج ہے جو آج سے 30 40 سال پہلے تھا ۔ وہی طریقہ ہاٸے تدریس وہی نصاب ، اگر نصاب میں کوٸی تبدیلی آتی بھی ہے تو صرف وہی جس سے مسلمانوں کے احساسات مجروح ہوں ، جس سے مسلمانوں کے بنیادی عقاٸد کو چھیڑا جا سکے ۔ اساتذہ سمجھتا ہے اس کو تنخواہ مل رہی ہے اس لیے اسے جدید طریقہ تدریس کی طرف دھیان دینے کی کوٸی ضرورت نہیں ۔
پاکستان میں ابھی تک بہت سے گھوسٹ سکول ہیں جو حکومتی کھاتے میں تو ہیں ، اساتذہ کو تنخواہیں اور سکول کو فنڈ مل رہا ہے لین اس سکول کا دنیا میں کوٸی وجود نہیں ۔ مختلف حکومتوں نے فیس معاف کر کے کتابیں مفت تقسیم کر دیں ، اساتذہ کے لیے بھی لازمی قرار دیا گیا کہ ہر سکول میں بچوں کی اتنی تعداد ہو ،لیکن نتیجہ پھر بھی صفر ہےکیونکہ گورنمنٹ کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ حکومت تو سرکاری سکول ، ان میں راٸج طریقہ تدریس ، دیگر سہولیات اور معیار تعلیم کو تو تب توجہ دے جب ان عوامی نماٸندوں کے بچے ان سکول میں داخل ہوں ۔ عوامی نماٸندوں ، حکومتی وزیروں ، مشیروں کے بچے تو ملک سے باہر رہتے ہیں ، وہی کے رسم ورواج اپناتے ہیں ، وہی سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے کبھی پاکستانی بچوں کو اپنا بچہ سمجھنا گوارا نہیں کیا تو تعلیم اپنے بچوں جیسی کیسے دلواٸیں ۔ ویسے بھی اگر حکومتی وزیر ، مشیر پاکستانی بچوں کا معیار تعلیم اپنے بچوں جیسا کر لیں تو پھر یہ سیاستدان اور ان کے بچے حکمرانی کس پر کریں ۔اس لیے ایک سازش کے تحت ان سیاستدانوں اور ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والوں نے کبھی تعلیم پر توجہ ہی نہیں دی ۔
ترقی یافتہ ممالک میں بچے کو نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ہنر بھی سکھایا جاتا ہے تاکہ بچہ عقل و شعور حاصل کر کے اپنا مستقبل سنوار سکے ۔ جبکہ پاکستان میں رٹہ سسٹم کے ذریعے کلرک وغیرہ ہی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہمارے ملک میں انجنیرنگ ، طب ، وکالت ، اور صنتی و ساٸنسی تعلیم دی جاتی ہے اس کا معیار بھی ترقی یافتہ ممالک سے انتہاٸی کم ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ہر طرح کی تعلیم پاکستان کی قومی زبان میں ہی دی جاٸے تاکہ لوگ جو پیسہ انگریزی سیکھنے میں لگاتے ہیں اس کی بچت بھی کر سکیں اور اپنی قومی زبان میں تعلیم ہونے کی وجہ سے بہت سے پیچیدہ تعلیمی مساٸل بھی خود حل کر سکیں گے ۔ انگریزی کو رٹہ لگانے کی بجاٸے تعلیم کو سمجھ کر حاصل کر سکیں ۔ جب تک مسلمان تعلیم حاصل کر کے اپنی عقل و دماغ سے کام لیتے ہوٸے کاٸنات میں غوروفکر کرتے رہے تب تک دنیا کے حکمران رہے اور جب سے مسلمان انگریزوں کی تعلیم کو انگریزی میں رٹہ لگاتے رہے آزاد ہو کر بھی انگریزوں کے محکوم ہیں ۔
پاکستان حقیقی معنوں میں تبھی ترقی کرے گا جب یہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق معیار تعلیم کو بلند کر کے ، معیاری طریقہ تدریس کے ذریعے ، شفیق اساتذہ کی زیر نگرانی جدید تعلیم دی جاٸے گی ۔ تاکہ بچے کی عقل و شعور کی گرہیں کھلیں اور وہ کاٸنات میں غور وفکر کر کے تجربات کے ذریعے کلرک بننے کی بجاٸے دنیا کی حکمرانی کی سوچ رکھیں ۔








