2007 میں، پاکستان نے اپنی سرحدوں کے اندر افغان مہاجرین کے لیے رجسٹریشن کا عمل شروع کیا، رجسٹریشن کا ثبوت (POR) کارڈ جاری کیا۔ ان کارڈز میں عارضی قانونی حیثیت، نقل و حرکت کی آزادی، اور فارنرز ایکٹ 1946 سے استثنیٰ کی پیشکش کی گئی تھی۔ اصل میں یہ 2017 تک جاری رہنے کا ارادہ تھا، افغانستان میں جاری عدم استحکام کی وجہ سے اس انتظام کو بڑھایا گیا تھا۔ اس کے بعد، کسی بھی نئے افغان پناہ گزین کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR) کے ذریعے کیے گئے مہاجرین کی حیثیت کے تعین کے طریقہ کار سے گزرنا پڑا۔
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کو مستقل رہائش کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک پر جو پہلے ہی معاشی اور سیاسی چیلنجز سے نبرد آزما ہیں، مہاجرین کی آمد سے مزید بوجھ نہیں بڑھ سکتا۔ مہاجرین کی آڑ میں پاکستان میں داخل ہونے والے افرادسے معاشی دباؤ میں اضافہ ہواجو ممکنہ طور پر اضافی مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس پروگرام کا بنیادی مقصد افغانوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا تھا جنہیں امریکہ کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے طالبان کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو اسپیشل امیگریشن ویزا (ایس آئی وی) پروگرام کے لیے اہل نہیں ہیں، جس میں مترجموں اور دیگر لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جنہوں نے امریکہ کی حکومت کے لیے کام کیا
اکتوبر 2020 کی UNHCR کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 50 لاکھ افغان اپنے آبائی ملک سے باہر بے گھر ہوئے، جن میں سے 90 فیصد کی میزبانی پاکستان اور ایران نے کی۔ (ماخذ: UNHCR. CITATON: "ایران میں پناہ گزین،” https://www.unhcr.org/ir/refugees-in-iran/
تاہم افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے سیکورٹی خطرات ایک سنگین تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔
مزید افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کا اسمگلروں نے فائدہ اٹھایا۔ اس غلط استعمال میں اہم کردار ادا کرنے والا ایک اہم عنصر پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے اکتوبر 2022 میں کراچی کی بندرگاہوں اور پورٹ قاسم پر "ان ٹرانزٹ ٹو افغانستان” کے طور پر سامان کی مہر لگانے کو روکنے کا فیصلہ تھا۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کے مطابق، اس معطلی نے ایک خامی پیدا کر دی ہے، جس سے افغانستان کے لیے تیار کردہ مصنوعات پر ٹیکس اور کسٹم فیس بغیر ادائیگی کی جا سکتی ہے جب انہیں پاکستان واپس کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہے۔ جہاں ایک انسانی پہلو پر غور کرنا ہے، وہیں سیکورٹی اور اقتصادی خدشات کو بھی دور کرنا ہوگا۔ پاکستان کو پناہ گزینوں کی اس آبادی کو سنبھالنے میں اہم چیلنجز کا سامنا ہے، اور ایک متوازن اور پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے UNHCR جیسی بین الاقوامی تنظیموں کی مشاورت سے صورتحال کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔