پاکستان میں بننے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر تفصیلی تحریر — شہیر احمد

خواجہ سرا یا مخنث ایک قابلِ رحم اور قابلِ توجہ جنس ہے، ظاہر ہے کہ ان کی تخلیق میں ان کا اپنا کوئی کردار یا اپنی کوئی خامی نہیں، وہ بھی اللّٰہ کی مخلوق ہیں اور اس لحاظ سے بد قسمت ہیں کہ ان پر گھر والوں کی محبتوں اور توجہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، بہن بھائیوں میں وہ اچھوت بن جاتے ہیں، باپ اور دیگر رشتہ دار ان کی وجہ سے شرمندہ سے رہتے ہیں، ایسے بچے کسی حد تک ماں کا پیار تو سمیٹتے ہیں، لیکن وہ تعلیمی اداروں میں جا سکتے ہیں نہ اپنی خاندانی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں، گھروں میں ان کو علیحدہ رکھا جاتا ہے، بڑے ہوں تو ان پر صرف ناچ گانے یا بھیک مانگنے کا ہی راستہ کھلا رکھا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں ان کے انسانی حقوق کا تحفظ انتہائی ضروری ہے

2018ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں پاکستان قومی اسمبلی میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پیش ہوا، سپیکر ایاز صادق اور صدر ممنون حسین کی منظوری سے پاس ہوا، ڈرائیونگ لائسنس بنانے اور ہراسانی سے تحفظ کی سہولت ملی اور ان سے بھیک منگوانے والے پر پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا بھی متعین کی گئی

چونکہ ایسے قوانین کے پیچھے بیرونی عطیات پر چلنے والی این جی اوز ہوتی ہیں اور وہ غیر ملکی ایجنڈے لے کر چل رہی ہوتی ہیں، اس لئے بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے اس ایکٹ کی آڑ میں دو ایسی کلاز رکھی گئیں جس سے اس قانون کے اصل مقاصد پس منظر میں چلے گئے اور خواجہ سراؤں کے بجائے یہ قانون ہم جنس پرستوں کے تحفظ کا قانون بن گیا

ٹرانس جینڈر ایک مغربی اصطلاح ہے اور یہ ایک پوری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے، اس تہذیب کا نام ہے +LGBTQ یعنی لزبین، گے، بائی سیکسوئیلی اور ٹرانس جینڈر۔ یہ ایک کمیونٹی ہے، ایک منفی کلچر ہے، ایک بد تہذیبی ہے۔ مکمل جنسی آوارگی اور بے راہ روی کے شکار اور دلدادہ اس کلچر کو خواجہ سراؤں سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ انہیں بھی ایک سیکس گروپ کے طور پر لیتے ہیں

چنانچہ 2018ء کے ایکٹ کی ایک شق میں جنس کے تعین یا جنس کی تبدیلی کا اختیار خود فرد کو دے دیا گیا ہے، اس میں خواجہ سرا کی قید بھی نہیں، یعنی کوئی بھی مرد نادرا کو درخواست دے کر اپنی جنس عورت کروا سکتا ہے اور کوئی سی عورت مرد بن کر اپنا نادرا کارڈ بنوا سکتی ہے، ہم جنس پرستی اور ایک ہی جنس کے افراد کی باہمی شادی کا قانونی راستہ کھول دیا گیا ہے، اب قانون کوئی گرفت نہیں کر سکتا، کوئی بھی مرد عورت کا قومی شناختی کارڈ بنوا کر عورتوں کی سیٹ پر ملازمت حاصل کر سکتا ہے، خواتین کے تعلیمی اداروں میں ٹیچر لگ سکتا ہے، لیڈیز واش روم استعمال کر سکتا ہے، خواتین کی مجالس میں جا سکتا ہے، اور کوئی بھی عورت مرد بن کر وراثت میں اپنا حصہ بھائیوں یا بیٹوں کے برابر لے سکتی ہے

اب یہ پارلیمنٹ کی دیگر مذہبی جماعتوں کے ممبران، مذہبی تنظیموں، سماجی و تعلیمی اداروں کے سربراہوں، وارثانِ منبر و محراب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ایکٹ میں ترمیم کو منظور کرنے اور نادرا کے ڈیٹا میں خواجہ سرا کی جنس لکھنے سے پہلے طبی معائنے کو لازمی کرنے کیلئے حکومت، ممبرانِ پارلیمینٹ اور سیاسی جماعتوں پر زور دیں کہ اس تہذیبی شب خون کا راستہ روکیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ پہلے مرحلے میں اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرے کہ وہ بہرحال ایک آئینی ادارہ ہے

اور یہ محض خدشات نہیں ہیں بلکہ 2018ء کے بعد سے تین سال میں نادرا کو جنس تبدیلی کی تقریباً 29 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، ان میں سے 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی جبکہ 15154 عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی، خواجہ سراؤں کی کل 30 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 21 نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر اندراج کی درخواست کی

سینیٹر مشتاق احمد خان کے پیش کئے گئے ترمیمی بل میں مطالبہ ہے کہ خواجہ سراؤں کی جنس کے تعین کو میڈیکل ٹیسٹ کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ یعنی مرد سرجن، لیڈی سرجن اور ماہرِ نفسیات پر مشتمل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ یہ مخنث ہے اور اس کا اندراج کس طرف ہونا چاہیے۔ خنثی مرد، خنثی عورت اور خنثی مشکل فقہی اصطلاحات ہیں اور اس کے باقاعدہ شرعی اصول و ضوابط ہیں

خود برطانیہ میں 2004ء کے جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازم قرار دیا گیا تھا، جبکہ پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء کے لحاظ سے کسی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر اپنی صوابدید پر مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننے اور تبدیلی جنس کا آپریشن کروانے کی کھلی چھٹی ہے اور اس کے نقصانات واضح ہیں

(یہ تحریر لائرز آف پاکستان کی مدد اور نادرا کی تصدیق کے ساتھ لکھی گئی ہے)

Comments are closed.