دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موسمی انفلوئنزا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے،

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صورتِ حال خاصی تشویشناک ہو چکی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں شہری وائرل انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں، جس کے باعث سرکاری و نجی اسپتالوں اور کلینکس میں مریضوں کا رش غیر معمولی حد تک بڑھ گیا ہے۔طبی ذرائع کے مطابق لاہور میں انفلوئنزا کے مریضوں میں ہوشربا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ متاثرہ افراد میں خشک اور مسلسل کھانسی، شدید نزلہ و زکام، سر درد، جسم اور جوڑوں میں درد، بخار اور عمومی کمزوری جیسی علامات عام پائی جا رہی ہیں۔ کئی مریضوں کا کہنا ہے کہ علامات شدت اختیار کر رہی ہیں اور معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

ماہرینِ صحت کے مطابق اس وقت انفلوئنزا تیزی سے پھیل رہا ہے اور اسپتالوں میں آنے والے بیشتر مریض انفلوئنزا اے کی علامات کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دسمبر سے فروری تک کے مہینوں میں موسم کی تبدیلی، سرد اور خشک ہوا اور احتیاطی تدابیر میں کمی کے باعث انفلوئنزا کے کیسز میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انفلوئنزا خاص طور پر بچوں، بزرگوں، حاملہ خواتین اور دائمی امراض میں مبتلا افراد کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل اور پھیپھڑوں کے مریض اس وائرس سے جلد متاثر ہو رہے ہیں، جبکہ ان میں پیچیدگیوں کا خدشہ بھی نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انفلوئنزا کی علامات عموماً 7 سے 10 روز تک برقرار رہتی ہیں، تاہم بعض کیسز میں بیماری کا دورانیہ بڑھ بھی سکتا ہے۔

محکمہ صحت پنجاب کے حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ فی الحال انفلوئنزا کے مخصوص لیبارٹری ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے، تاہم کلینکل تشخیص کی بنیاد پر مریضوں کی تعداد معمول سے کہیں زیادہ ہے۔ حکام کے مطابق اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی علامات واضح طور پر انفلوئنزا کی نشاندہی کر رہی ہیں، جسے سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔طبی ماہرین نے عوام کو ہدایت کی ہے کہ کھانسی، بخار اور نزلہ زکام کی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں، غیر ضروری بھیڑ میں جانے سے گریز کریں، ماسک کا استعمال کریں، ہاتھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور علامات شدید ہونے کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بروقت احتیاط اور آگاہی سے انفلوئنزا کے پھیلاؤ کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق فلو کی نئی قسم A(H3N2) کے ذیلی گروپ ’سب کلاڈ K‘ کے باعث برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں انفلوئنزا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔برطانوی محکمہ صحت کے مطابق اسپتالوں میں روزانہ اوسطاً 2600 سے زائد مریض داخل ہو رہے ہیں، جو پچھلے ہفتے کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔برطانوی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کوویڈ کے بعد اسپتالوں پر سب سے بڑا دباؤ ہے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ خطرناک نہیں لیکن اس کا پھیلاؤ معمول سے پہلے شروع ہو گیا ہے۔

پاکستان میں بھی سپر فلو انفلوائنز کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے اور اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ 20 فیصد نمونوں میں وائرس کی نئی قسم A(H3N2) کے ذیلی گروپ ’سب کلاڈ K‘ کی موجودگی پائی گئی۔اس حوالے سے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے طبی ماہر ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے بتایا کہ سپر فلو وائرس کی علامات بھی دیگر انفلوئنزا کی طرح ہی ہوتی ہیں یعنی سر میں درد، نزلہ، بخار جیسی علامات ہوتی ہیں۔ڈاکٹر رانا جواد نے بتایا کہ اس وائرس کو سپر فلو اس کے لیے کہہ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں جو متوقع تعداد ہوتی ہے اس سے زیادہ تعداد میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وائرس میں بھی کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔

Shares: