یوں تو پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کا سرخیل بننے کی چاہت ہر سیاستدان کو ہی رہتی ہے لیکن ملک کی حالیہ سیاسی نورا کشتی پر نظر دورائیں تو فلحال ایک ہی سیاستدان ایک ہی مقبول چہرہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جبکہ مدمقابل جس مشن کے تحت حکومت کے آخری سال اقتدار میں آئے تھے وہ اس مشن کی تکمیل میں ایک ساتھ مصروف ہیں ۔ ۔۔
اس ساری صورتحال میں دونوں جانب سے ملک و ریاست کے ذمہ دار ادارے چکی کے دو پاٹوں میں سیاستدانوں کی سیاسی ضرورت کے تحت پس رہے ہیں۔۔۔
ادارے آیئنی حدود میں رہ کر کام کریں یا ملک کے سیاستدانوں کو آیئنی حدودکا تعین کریں، دونوں صورتوں میں ادارے سیاستدانوں اور انکے چاہنے والوں کے درشت لہجے اور شاکی رویے کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔
عدالتوں سے جس سیاستدان کے حق میں فیصلے آجائیں وہ حق کی فتح کا جھنڈا تھامےاور دو انگلیاں دکھاتا ہوا باہر آتا ہے اور مخالفیں کو بری طرح تنقید کا نشانہ بناتا ہے جبکہ جس سیاستدان کے خلاف فیصلے آجائیں وہ عدالتوں اور اداروں کو نشانے پر رکھ لیتا ہے اور اسکی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
عام آدمی کو جب سیاستدانوں کی یہ چالاکیاں سمجھ میں نہیں آتی تو وہ بھی نظام کو کوس کر اپنے سیاسی لیڈر کی جے جے کار کرتے ہوئے انقلاب اور حقیقی آزادی کے نعرے بلند کرتا ٹرک کی بتی کے پیچھے چل پڑتا ہے۔
اس ہفتے میں دو خبریں آئیں جن کے بعد ملکی سوشل میڈیا میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہوئے نظر آیا، ایک طرف باوجود گرفتاری کی تیاری اور شدید خواہش کے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کی جانب سے درج مقدمے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر اسلام آباد آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے اور دوسری جانب اسپیشل سینٹرل کورٹ لاہورکے فیصلے کی روشنی میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہوگئے ہیں۔۔۔
دونوں طرف حق کی جزوی اور مکمل فتح کے شادیانے بج رہے ہیں اور نعرے لگ رہے ہیں، لیکن عوام کا سنجیدہ حلقہ ہونق بنے سراپا سوال ہے کہ اگر سبھی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں حق کی علمبردار اور سچی ہیں تو پھر پاکستان کی عوام ہی باطل اور جھوٹی ہے؟؟؟؟