تجزیہ شہزاد قریشی
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں 2023 کی ڈچ رپورٹ پر عملدرآمد نہیں ہونا بہت بڑا المیہ ہے جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے
پاکستان میں ہر سال بارش اور سیلاب آتے ہیں ، دیہات ڈوب جاتے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں، اربوں کا نقصان ہوتا ہے
آخر کیا وجہ بنی کہ وفاقی وزیر احسن اقبال نے اس رپورٹ پر نہ خود عمل کیا اور نہ ہی عملدرآمد کروایا اور نہ ماہرین واٹر مینجمنٹ سے استفادہ حاصل کیا؟
وزراء اعلٰی پنجاب سندھ، بلوچستان، کے پی کے، گلگت بلتستان ڈچ رپورٹ منگوا کر اس پر ورک کریں اور ملک سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائیں
قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنی سوچ کو بدل لیں۔نیدر لینڈ نے بدلا اور بچ گیا۔ ہم کب بدلیں گے؟ یا ہر سال اگلے سیلاب تک پھر صرف رونا اور انتظار کریں گے؟
نیدر لینڈز کے ماہرین واٹر مینجمنٹ نے 2022 کے سیلاب کے فورا بعد 16 مئی 2023 میں سیلاب سے متاثرہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے وزٹ کے بعد نیدرلینڈز کے سفارت خانے کی جانب سے پاکستان میں سیلاب پر قابو پانے اور پانی سے متعلقہ آفات کے خطرے کو کم کرنے کے حوالے سے وزارتِ آبی وسائل اور وزارتِ منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے اشتراک سے ورکشاپ منقعد کی تھی جس میں بین الاقوامی اداروں، ترقیاتی شراکت داروں، غیر ملکی مشنز اور پاکستانی حکومت کے نمائندوں نے شرکت کی تھی جس میں پانی کی بہتر نظم و نسق پر زور دیا گیا تھا۔ ورکشاپ ڈچ رسک ریڈکشن (DRR) ٹیم کے نتائج پر مبنی تھی۔ 2022 کے سیلاب کے بعد، پاکستان نے نیدرلینڈ سے کہا کہ وہ سیلاب اور پانی کے انتظام کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرے۔ اس موقع پر ڈچ ماہرین کے تعاون کو سراہتے ہوئے فیڈرل فلڈ کمیشن کے چیئرمین مسٹر احمد کمال نے وزارت آبی وسائل کے ذریعے پاکستان اور ہالینڈ کے درمیان آبی وسائل اور سیلاب کے انتظام پر طویل المدتی تعاون کی تجویز پیش کی تھی۔ ہالینڈ کی سفیر مسز ہینی ڈی وریس نے کہا تھا کہ سیلاب انہیں نیدرلینڈز میں 1953 کے سیلاب کی یاد دلاتا ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام نے ڈچ آبادی کی حمایت کی تھی۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال نے آبی آفات اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے ہالینڈ کی جانب سے جاری تعاون کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ساتواں سب سے زیادہ خطرے کا شکار ملک ہے، اور حکومت پاکستان عالمی برادری کے ساتھ شراکت داری کے لیے پرعزم ہے تاکہ ان کے علم اور مہارت سے استفادہ کیا جا سکے، اور مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے لیے لچکدار اور موافقت پذیر انفراسٹرکچر بنایا جا سکے۔ پاکستان میں ہر سال بارش اور سیلاب آتے ہیں ، دیہات ڈوب جاتے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں، اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ میڈیا چند دن شور مچاتا ہے، حکومت امداد مانگتی ہے، بیرونی ایجنسیاں تھوڑا سا فنڈ دیتی ہیں اور پھر سب کچھ بھول کر ہم اگلے سیلاب کا انتظار کرتے ہیں۔ نہ ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ نہ دریاؤں کی صفائی ہوتی ہے۔ نہ حفاظتی بند مضبوط کیے جاتے ہیں۔ نہ کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ بنی ہم نے نیدرلینڈز ماڈل کو کیوں نہیں اپنایا اور نیدر لینڈز کے ماہرین واٹر مینجمنٹ سے استفادہ حاصل کیوں نہیں کیا؟ کیا ہم اپنے ملک کے عوام کو ہر بار کی طرح ایسے ہی سیلابی ریلوں کے رحم و کرم پر چھوڑیں دیں گے؟ ہر سال اربوں کے نقصانات کرتے رہیں گے۔ مگر کوئی پالیسی نہیں اپنائیں گے ماہرین سے استفادہ حاصل نہیں کریں گے؟ نیدرلینڈ نے سیلاب کو شکست دی، پاکستان کب جاگے گا؟ فرق صرف سوچ کا ہے۔ نیدرلینڈ کا تقریباً 26 فیصد رقبہ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ تاریخ میں کئی بار یہ ملک تباہ کن سیلابوں سے متاثر ہوا، مگر وہاں کے لوگوں نے اپنی تقدیر کو بدلا۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ سب کچھ اللہ کے حوالے ہے اور بس انتظار کیا جائے۔ بلکہ انہوں نے محنت، منصوبہ بندی اور سائنس کا سہارا لیا۔ انہوں نے ڈیم اور بیریئرز بنائے جو سمندر کے پانی کو قابو میں رکھتے ہیں۔ ڈیلٹا ورکس جیسا منصوبہ بنایا جو دنیا کا انجینئرنگ کا عجوبہ مانا جاتا ہے۔سٹروم سرج بیریئرز تیار کیے جو طوفانی پانی کو روک لیتے ہیں۔ پولڈرز سسٹم بنایا جس سے نیچے زمین کو خشک کر کے زراعت کے قابل بنایا۔ اور پھر ڈیجیٹل سسٹمز لگائے جو ہر وقت پانی کی سطح کو مانیٹر کرتے ہیں۔ نیدر لینڈ دنیا کا وہ ملک جس کا ایک تہائی حصہ سمندر کے نیچے ہے، آج سیلاب پر قابو پا کر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتا ہے۔ اور ہم، جنہیں اللہ نے بڑے بڑے دریا، زرخیز زمین اور قدرتی وسائل دیے ہیں، آج بھی ہر چند سال بعد پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور بس یہی کہتے ہیں: “یہ اللہ کا عذاب ہے، آزمائش ہے۔ ہم نیدرلینڈ سے چند ایک چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔ جیسے ہمیں سمندروں کے بجائے دریاوں کے اوورفلو پر نظر رکھنا ہوگی، اس کے لیے زیادہ محفوظ اور تگڑے بند بنائے جائیں، بیراج اپ گریڈ ہوں، نہروں کے پشتے مضبوط کیے جائیں۔نیدر لینڈز ماڈل کا فلسفہ (پانی کو جگہ دو اور انفراسٹرکچر اور کمیونٹی ساتھ لے کر چلو) پاکستان میں فائدہ دے سکتا ہے، مگر پاکستان کو اپنی مقامی حقیقت (مون سون، بڑے دریا، زیادہ گاد، کمزور ادارے) کو دیکھتے ہوئے مقامی ایڈاپٹیڈ ماڈل بنانا ہوگا۔ جبکہ نیدرلینڈ ماڈل کے تین پہلو قابلِ عمل پہلو ہیں جیسے کہ دریاوں کے ساتھ فلڈ بفر زون بنانا۔ نشیبی علاقوں میں خاص طور سے ایسا کیا جائے کہ شہروں میں بارش کے پانی کی سمارٹ مینجمنٹ۔ برساتی نالوں کی صفائی اور ان کی وسعت بڑھانا، سیوریج کی بہتری، نشیبی جگہوں پر پانی چوس کنوئیں کھودنا تاکہ پانی زیرزمین چلا جائے وغیرہ۔ جبکہ مقامی سطح پر واٹر بورڈ اور واٹر مینجمنٹ کےمضبوط، مستحکم ادارے، ویسے تو پاکستان میں یہ خواب ہی ہے، حب کہ نیدر لینڈ ماڈل کا ایک حصہ اندرون سندھ میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے، تاکہ سمندری پانی کے کٹاؤ میں کمی ہو اور ڈیلٹا بڑھ سکے۔ پاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر نیدر لینڈ جیسے چھوٹے ملک نے پانی کو دشمن کے بجائے ایک منصوبے کے ذریعے دوست بنا لیا تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ہمیں نئے ڈیمز اور ریزروائرز بنانے چاہییں۔ دریاؤں کے کناروں پر مضبوط حفاظتی بند اور بیریئرز بنانے ہوں گے۔ آبی وسائل کی وزارت میں سیاستدان نہیں بلکہ ماہرین کو شامل کرنا ہوگا۔ دریاؤں کے قریب بے ہنگم آبادی روکنی ہوگی۔ عوام کو سمجھانا ہوگا کہ سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں، یہ انسانی غفلت کا نتیجہ بھی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب، وزیر اعلٰی سندھ، وزیر اعلٰی بلوچستان، وزیر اعلٰی خیبر پختون خواہ، وزیر اعلٰی گلگت بلتستان ڈچ ماہرین کی 2023 والی رپورٹ منگوائیں اور اس پر ورک کریں اور ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ جب نیدرلینڈز کے واٹر مینجمنٹ کے ماہرین کی ٹیم آئی اور انھوں نے رپورٹ تیار کی مگر واٹر مینجمنٹ پاکستان نے اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا اور نہ ہی اس پر کوئی پیش رفت ہوئی، اگر اس وقت اس رپورٹ کی روشنی میں عملدرآمد کیا جاتا تو آج جس طرح سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے وہ ہمیں نہیں کرنا پڑتا۔