پاکستان میں لیک ویڈیوز کاپھیلاؤ اور حکومتی ذمہ داری
پاکستان میں جہاں پورن سائٹس پر پابندی ہے، وہیں نجی ویڈیوز کے لیک ہونے کا مسئلہ بھی دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سوال اب تک کئی بار اٹھ چکا ہے کہ اگر پورن مواد غیر اخلاقی اور غیر قانونی سمجھا جاتا ہے تو پھر نجی ویڈیوز کی شیئرنگ اور ان کا بے رحمی سے پھیلاؤ کیوں کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنتا؟ کیا ہم اس دوہری سوچ کا شکار ہیں؟
پاکستان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ پورن دیکھنا ایک اخلاقی غلطی ہے اور اس پر قانونی پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ تاہم، نجی ویڈیوز یا "نائیڈ” ویڈیوز کا لیک ہونا اور ان کا سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر تیزی سے پھیلنا ایک الگ نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اکثر یہ ویڈیوز مختلف افراد کی رضا مندی کے بغیر انٹرنیٹ پر اپلوڈ ہو جاتی ہیں، اور ان ویڈیوز کے شیئر ہونے کے بعد متاثرہ افراد کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں جب کسی نجی ویڈیو کا لیک ہونا ہوتا ہے، تو اکثر افراد اس ویڈیو کو دیکھنے اور شیئر کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہ دوہرا معیار واضح طور پر موجود ہے کہ لوگ پورن ویڈیوز کو اخلاقی طور پر غلط سمجھتے ہیں لیکن جب بات کسی کی نجی ویڈیو کی ہو تو وہ اسے شیئر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس سے نہ صرف متاثرہ فرد کی ذاتی زندگی کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ان ویڈیوز کے پھیلاؤ سے معاشرتی سطح پر بھی بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
نجی ویڈیوز کے لیک ہونے کی صورت میں فرد کی عزت اور ساکھ پر حملہ ہوتا ہے، جس کا اثر ان کے خاندان، دوستوں اور پورے معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ اکثر اوقات یہ معاملہ ذہنی و نفسیاتی مسائل کا سبب بنتا ہے اور متاثرہ افراد اپنے آپ کو تنہائی، شرمندگی اور بے عزتی کا شکار محسوس کرتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کو اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ حکومت کی جانب سے وی پی این (VPN) پر پابندی لگانے کا اقدام ایک طرف تو انٹرنیٹ پر مواد کی کنٹرولنگ کی کوشش ہے، لیکن اس سے نجی ویڈیوز کے پھیلاؤ کو روکنا ممکن نہیں۔ حکومت کو اس مسئلے کے جڑ تک پہنچ کر اس کے اصل اسباب کا تجزیہ کرنا ہوگا۔نجی ویڈیوز کے لیک ہونے کا مسئلہ صرف افراد کی ذاتی آزادی یا انٹرنیٹ کی آزادی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ معاشرتی، اخلاقی اور قانونی مسائل بھی ہیں جنہیں بہتر طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینی ہوںگی جو اس نوعیت کے مواد کی تشہیر کو روکے اور ان افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے جو اس قسم کے ویڈیوز کو جان بوجھ کر شیئر کرتے ہیں۔
حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے خلاف سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ لیک ہونے والی ویڈیوز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر سخت سزا کا تعین کیا جانا چاہیے۔حکومت کو ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس سے لیک ہونے والی ویڈیوز کو فوراً ڈیلیٹ کیا جا سکے اور ان کی تشہیر کو روکا جا سکے۔ سوشل میڈیا کمپنیز کو اس بات کی ذمہ داری دینی چاہیے کہ وہ ایسے مواد کی فوراً نشاندہی کریں اور اسے ہٹا دیں۔ اس سلسلے میں ان کمپنیز کو پاکستانی قوانین کے مطابق کارروائی کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔عوام میں اس بات کا شعور پیدا کرنا بہت ضروری ہے کہ نجی ویڈیوز کا شیئر کرنا صرف اخلاقی طور پر غلط نہیں ہے، بلکہ یہ ایک جرم بھی ہے جو دوسرے انسان کی زندگی کو تباہ کر سکتا ہے۔
پاکستان میں نجی ویڈیوز کے لیک ہونے کا مسئلہ ایک سنگین نوعیت کا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو اس مسئلے کے جڑ تک پہنچ کر اس کا مؤثر حل نکالنا ہوگا۔ صرف وی پی این پر پابندی لگا کر اس مسئلے کا حل نہیں نکلے گا، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ اس طرح کی ویڈیوز کی تشہیر کو روکا جا سکے اور ان کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔