پاکستان میں قیامت کی گھڑی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستان کے عوام آج کل ایک ایسی قیامت کی گھڑی سے گزر رہے ہیں جہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ان کی زندگیوں کو مفلوج کر رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت 272.15 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 284.35 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے جبکہ بجلی کے نرخ 53 روپے فی یونٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ اعدادوشمار محض نمبر نہیں بلکہ عام آدمی کی چیختی ہوئی پکار ہیں جو روزمرہ کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام اور خاص طور پر مزدور طبقہ پہلے ہی وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کی مسلط کردہ سلیب گردی کا شکار ہیں اور اب ایک ماہ میں دو بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھاری اضافے نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ ایک رکشہ ڈرائیور جو روزانہ 800 سے 1000 روپے کماتا ہے، اب ایندھن کے اخراجات پورے کرنے کے بعد اپنے گھر کے لیے کچھ بچا نہیں پاتا۔ تعمیراتی شعبے سے وابستہ مزدور جو پہلے ہی مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں اب نوکریوں کے خاتمے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ طبقہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہے، جس سے غربت اور معاشرتی عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔

بسوں، رکشوں اور ٹیکسیوں کے کرائے آسمان کو چھو رہے ہیں، جس سے غریب اور متوسط طبقہ اپنے روزمرہ سفر کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے۔ ایک عام مزدور جو صبح سویرے اپنے کام پر جانے کے لیے بس کا انتظار کرتا ہے، اب اس کرائے کو ادا کرنے کے لیے اپنی جیب خالی کرتا ہے۔ اس کی آمدنی وہی پرانی ہے، لیکن ٹرانسپورٹ کے اخراجات دگنے ہو چکے ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنے بچوں کی تعلیم یا گھر کے راشن پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی اس معاشی بحران کی زد میں ہیں۔ دال، چینی، آٹا اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ایندھن کی قیمتوں سے ٹرانسپورٹ اور پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔ ایک عام گھریلو خاتون اب سوچتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے دو وقت کا کھانا کیسے تیار کرے گی جب ہر چیز کی قیمت اس کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں پر خرچ کم ہوتا جا رہا ہے اور پاکستانی عوام کی اگلی نسل ان پڑھ اور ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف سڑکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر بجلی کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔ فیول سرچارج ایڈجیسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخ میں ہر بار اضافہ کیا جاتا ہے اور حالیہ رپورٹس کے مطابق بجلی کی قیمت 53 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5-10 روپے فی لیٹر اضافہ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں 1-2 روپے اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یہ اضافہ عام گھرانوں کے لیے ایک اور دھچکہ ہے جو پہلے ہی بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے پریشان ہیں۔ گرمیوں کی شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ اور مہنگے بجلی کے بل عوام کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ صنعتوں پر بھی اس کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ مہنگی بجلی اور ایندھن سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے، جس سے پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی میں غیر مسابقتی شکارہورہی ہیں۔ برآمدات کم ہو رہی ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بند ہو رہے ہیں، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک فیکٹری ورکر جو اپنی نوکری کھو دیتا ہے، اپنے خاندان کے لیے روٹی کا بندوبست کیسے کرے گا؟ یہ سوال پاکستانی معاشرے کے ہر کونے میں گونج رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے پٹرولیم لیوی اور دیگر ٹیکسوں کے ذریعے مالی خسارے کو پورا کرنے کی پالیسی عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے۔ حالیہ بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر 2.5 روپے فی لیٹر کاربن لیوی متعارف کی گئی ہے، جو اگلے مالی سال میں 5 روپے فی لیٹر تک بڑھ جائے گی۔ اس سے حکومت کو 48 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے لیکن یہ آمدنی عام آدمی کی جیب سے نکل رہی ہے۔ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا۔ ٹیکسز اور لیویز برقرار رہتے ہیں اور عوام کو ریلیف دینے کے بجائے حکومتی ترجیحات قرضوں کی ادائیگی اور مالیاتی اہداف پر مرکوز رہتی ہیں۔ پالیسیوں میں شفافیت کا فقدان اور عوام دوست اقدامات کی کمی نے عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی عام آدمی کی فلاح کے لیے سنجیدہ ہے؟ اگر ہاں تو پٹرولیم لیوی کو کم کیوں نہیں کیا جاتا؟ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ پر قابو کیوں نہیں پایا جاتا؟ متبادل توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی کو فروغ کیوں نہیں دیا جاتا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہیں لیکن ان کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔

پاکستانی عوام کی سب سے بڑی امنگ ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی جئیں جہاں انہیں بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد نہ کرنی پڑے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو تعلیم ملے، ان کے گھروں میں بجلی ہو اور ان کی جیب میں اتنا پیسہ ہو کہ وہ دو وقت کا کھانا خرید سکیں۔ لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی کے بڑھتے نرخ اور وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کی مسلط کردہ سلیب گردی نے ان امنگوں کو چکناچور کر دیا ہے۔ ایک ماہ میں دو بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی چیخ کو اور بلند کر دیا ہے۔ ایک عام پاکستانی کی آواز یہ ہے کہ "ہم سے ہر بار قربانی مانگی جاتی ہے، لیکن ہمیں بدلے میں کیا ملتا ہے؟ مہنگائی، بے روزگاری اور اندھیرا۔” عوام اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ صرف ٹیکس دینے، بل بھرنے اور مہنگائی سہنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ کیا یہ ریاست صرف امیروں کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی تھی؟ اگر نہیں تو پھر عام آدمی کو ریلیف دینے کا کوئی عملی، مستقل اور مؤثر راستہ دکھایا جائے۔

اگر حکومت نے اس بڑھتی مہنگائی، گرتی قوتِ خرید اور ختم ہوتے صبر کا ادراک نہ کیاتو وہ دن دور نہیں جب یہ عوامی اضطراب ایک منظم مزاحمت کی صورت اختیار کر لے گا۔ پاکستانی قوم نے پہلے ہی بہت کچھ برداشت کیا ہے،دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، سیلاب، زلزلے اور اب مسلسل معاشی استحصال۔ ہر حکومت آتی ہے، دعوے کرتی ہے اور جاتے جاتے عوام کو مہنگائی کا ایک نیا زخم دے جاتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے۔ یہ قوم مزید قربانی نہیں دے سکتی۔ ریاستیں ایندھن، ٹیکس اور بجٹ سے نہیں بلکہ اپنے عوام کے اعتماد، خوشحالی اور امید سے مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ اعتماد اب خطرے میں ہے اور اسے بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ملک کی بقا قرضوں سے نہیں، عوامی اعتماد سے وابستہ ہے اور جب وہ اعتماد ٹوٹتا ہے تو نہ صرف معیشت بلکہ پورا نظام لڑکھڑا جاتا ہے۔

اگر یہ بحران یوں ہی جاری رہا تو یہ نہ صرف معاشی نظام کو مفلوج کرے گابلکہ سماجی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ حکومت کو فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ پٹرولیم لیوی اور ٹیکسوں پر نظرثانی کی جائے، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے خلاف سخت ایکشن لیا جائےاور مقامی سطح پر تیل صاف کرنے کی صلاحیت بڑھائی جائے۔ شمسی توانائی اور دیگر متبادل ذرائع کو فروغ دینے سے نہ صرف تیل پر انحصار کم ہوگا بلکہ عوام کو سستی توانائی بھی میسر آئے گی۔ سب سے اہم بات، حکومت کو عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے شفاف اور عوام دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ پاکستانی عوام کی امنگیں اور ان کی مشکلات کو سمجھنا اور ان کا تدارک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اب خاموشی کا وقت نہیں ہے،عوام کی چیختی ہوئی آواز کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

Shares: