بھارتی مسلح افواج کے سربراہ جنرل انیل چوہان نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ بھارت نے مئی میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں نامعلوم تعداد میں لڑاکا طیارے کھوئے۔ تاہم، انہوں نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ یہ چار روزہ جنگ جوہری تصادم کے قریب پہنچی تھی۔
سنگاپور میں جاری "شنگریلا ڈائیلاگ” میں بلوم برگ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل چوہان نے کہا، "اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرائے گئے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کیوں گرائے گئے۔” انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ بھارت نے کتنے طیارے کھوئے۔جنرل چوہان کا کہنا تھا، "اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم نے کون سی ٹیکنیکل غلطیاں کیں، ان کی نشاندہی کی، اصلاح کی اور پھر دو دن بعد دوبارہ کامیابی سے کارروائی کی۔ ہم نے تمام لڑاکا طیارے دوبارہ فضاء میں بھیجے اور طویل فاصلے کے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔”
یہ بیان بھارتی فوج یا حکومت کی جانب سے سب سے براہ راست اعتراف ہے جو اس مہینے کے آغاز میں پاکستان سے ہونے والی شدید جھڑپوں کے دوران لڑاکا طیاروں کے نقصان سے متعلق سامنے آیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے چند روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے چھ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے ہیں، بھارت کی حکومت نے اس سے قبل طیارے گنوانے یا نہ گنوانے سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
یہ جھڑپ دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان گزشتہ پچاس برسوں کی بدترین جھڑپ قرار دی جا رہی ہے، جس میں دونوں طرف سے فضائی، ڈرون، میزائل، توپ خانے اور چھوٹے ہتھیاروں کا تبادلہ ہوا۔ جھڑپ کی ابتدا 22 اپریل کو پہلگام میں ایک حملے سے ہوئی جس میں 26 شہری مارے گئے۔
جنرل چوہان سے جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر تبصرہ مانگا گیا کہ امریکہ نے جوہری جنگ کو روکا، تو انہوں نے کہا کہ "یہ دعویٰ بعید از قیاس ہے کہ کوئی فریق جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے قریب تھا۔”میرے ذاتی خیال میں روایتی جنگی کارروائیوں اور جوہری دہلیز کے درمیان کافی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان کے ساتھ رابطے کے تمام ذرائع کھلے تھے تاکہ صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے۔” ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے پاس کئی ایسے آپشنز موجود تھے جو مکمل جنگ سے پہلے آزما سکتے تھے۔
جنرل چوہان نے کہا کہ جنگ بندی برقرار ہے، تاہم اس کا دار و مدار پاکستان کے رویے پر ہے۔ "ہم نے واضح سرخ لکیریں کھینچ دی ہیں، اور اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ انہیں عبور کرتا ہے یا نہیں۔”انہوں نے کہا کہ بھارت عالمی سطح پر اپنا موقف پیش کر رہا ہے اور دنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے