موجودہ وقت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کی وجہ سے جہاں اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے وہیں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی بےپناہ اضافہ ہوا ہے جسکی وجہ سے مسافروں کا سفری بجٹ بھی متاثر ہوا ہے جن لوگوں کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ ہے ان کی اکثریت نے مہنگائی سے تنگ آکر سفر کے لئے مسافر گاڑیوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا جبکہ جو لوگ مسافر گاڑیاں استعمال کرتے تھے ان کی اکثریت نے لانگ روٹ کے سفر کے لئے ریل گاڑیوں کا استعمال شروع کر دیا.
کچھ عرصہ پہلے لوگوں کی سفر کے لئے پہلی ترجیح ریل گاڑی ہوتی تھی کیونکہ ریل گاڑی میں عام مسافر گاڑیوں کی نسبت زیادہ سہولیات فراہم کی جاتی تھی. ریل میں دوران سفر اگر آپ بیٹھ بیٹھ کر تھک گئے تو گاڑی میں چہل قدمی کر سکتے ہیں دوران سفر بچے ایک جگہ مستقل نہیں بیٹھتے ہیں اور والدین کو تنگ کرتے ہیں ریل میں وہ آزادی سے کھیل کود سکتے ہیں. اس کے علاوہ ٹوائلٹ کی سہولت بھی میسر ہے.
دوران سفر ٹرین مختلف اسٹیشنوں پر رکتی ہے وہاں سے آپ اپنی ضروریات کی چیزیں لے سکتے ہیں اس کے علاوہ ٹرین میں بھی لوگ اشیاء بیچنے وقفے وقفے سے آتے رہتے ہیں جن سے آپ اپنی ضرورت کی چیزیں خرید سکتے ہیں. ٹرین میں برتھ کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے اگر آپ لمبے سفر پر جا رہے ہیں تو برتھ بک کرا لیں اور راستے میں جہاں آرام کی ضرورت محسوس کریں برتھ پر لیٹ کر آرام دہ نیند سے لطف اندوز ہوئیں.
اس کے علاوہ مسافروں کی استطاعت کے مطابق ٹکٹ اکانومی کلاس، اے سی اور بزنس کلاس میں بھی میسر ہے. مسافروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اور ان کی شکایات کے ازالے کے لئے ریلوے پولیس کی سہولت بھی میسر ہے.اس کے علاوہ بزرگ شہریوں اور بچوں کے لئے ٹکٹوں کی قیمت میں رعایت اور متعدد سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے پاکستان ریلوے کو دیگر ٹرانسپورٹ کمپنیوں پر واضح فوقیت حاصل تھی اور عرصہ دراز تک لوگوں کی پرسکون سفر کرنے کے لئے اولین ترجیح پاکستان ریلوے ہی رہی ہے.
پھر جیسے دن کے بعد رات اور خوشی کے بعد غمی ہوتی ہے ایسے ہی پاکستان ریلوے کو بھی حاسدوں کی نظر اور دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کی سازش کھا گئی. کیوں کہ جب تک پاکستان ریلوے میں دستیاب سہولیات انتہائی مناسب پیسوں میں میسر تھی دیگر ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی تھی اور سرمایہ کاروں کی انویسٹمنٹ ڈوب سکتی تھی سرمایہ کاروں کے سینے میں دل نہیں بلکہ کیلکولیٹر ہوتا ہے وہ فیصلہ جذبات سے نہیں بلکہ نفع نقصان دیکھ کر کرتے ہیں.
تو سرمایہ کاروں نے پاکستان ریلوے کو اپنی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے اس کے خلاف سازشیں شروع کی سب سے پہلے دودھ کی راکھی پر بلا بٹھایا اور پاکستان ریلوے کی وزارت ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے سربراہ کے حوالے کر دی جس نے ریلوے کی تباہی کی بنیاد رکھ دی اور اس کے دور وزارت میں ہر گزرتے دن ریلوے کا معیار بدتر سے بدتر ہوتا گیا.
وقت پر ٹرینوں کا منزل پر نہ پہنچنا، پرانے انجن اور ڈبے، مشینری میں گھٹیا پرزوں کے استعمال کی وجہ سے دوران سفر ٹرینوں کا خراب ہونا، پٹریوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے حادثات کا ہونا، ریلوے عملے پر سے چیک اینڈ بیلنس ختم کرنے کی وجہ سے عملے کا بے لگام ہونا، سیاسی اور ضرورت سے زائد افراد کی بھرتیاں، سہولیات کی عدم دستیابی، شکایات کی صورت میں شکایت کنندہ کی دادرسی نہ کرنا، ریلوے اراضی پر قبضہ کر کے اونے پونے داموں فروخت کرنا الغرض جہاں تک ممکن تھا پاکستان ریلوے کا نقصان کر کے ایک انتہائی نفع بخش ادارے کو خسارے میں لے جایا گیا.اور مسافر ٹرین کے سفر سے متنفر ہو کر نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی گاڑیوں پر سفر کرنے لگ گئے.
موجودہ مہنگائی کی جو لہر آئی ہے اس میں سفر کرنے کے لئے ٹرین کا سفر ہی ایک متوسط طبقے کے فرد کے لئے مناسب ہے اور گورنمنٹ کے لئے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ دوبارہ سے سہولیات کی فراہمی کر کے، لوگوں کی شکایات دور کر کے اور ٹرینوں کے منزل پر پہنچنے کے اوقات کی سختی سے پابندی کرا کے مسافروں کو دوبارہ سے ٹرین کے سفر کی طرف راغب کر سکتی ہے اس طرح جہاں متوسط اور غریب طبقے کے افراد کو سفری سہولیات حاصل ہوں گی وہیں گورنمنٹ کا ادارہ بھی نقصان سے دوبارہ نفع میں چلا جائے گا اور گورنمنٹ کی طرف سے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کے جو سفری اخراجات بڑھے تھے وہ بھی دوبارہ قابو میں آ جائیں گے.اور لوگوں کو حکومت سے جو شکایات پیدا ہوئی ہیں ان کا بھی کسی حد تک ازالہ ہو جائے گا.