دنیا کی سیاست کے افق پر ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے۔ مشرق و مغرب کی صف بندیاں بدل رہی ہیں، طاقت کے مراکز نئی کروٹیں لے رہے ہیں، اور ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جسے سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ معاہدہ محض الفاظ۔۔۔۔۔ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک فولادی ڈھال، ایک روشن مینار اور ایک ایسا پیمان ہے جو دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے کافی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے رشتے کوئی معمولی سفارتی تعلقات نہیں، یہ دو دلوں کی دھڑکن، دو روحوں کا امتزاج اور ایمان کی خوشبو میں بسا ہوا وہ تعلق ہے جس کی جڑیں قیامِ پاکستان کے دن سے ہی لہلہانے لگیں۔ سعودی عرب ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کر کے اس کے زخموں پر مرہم رکھا۔ ہر کڑے امتحان میں ریاض نے اسلام آباد کا ہاتھ تھاما۔ چاہے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا خون آشام منظرنامہ ہو، یا 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پابندیوں کا کڑا طوفان، سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کر ساتھ دیا ہے۔
ادھر پاکستان نے بھی ہر لمحہ یہ ثابت کیا کہ حرمین شریفین کی حفاظت اس کے ایمان کا حصہ ہے۔ پاکستانی سپاہی جب مکہ اور مدینہ کے ذکر پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیتے ہیں تو دنیا جان لیتی ہے کہ یہ تعلق سود و زیاں کا نہیں، بلکہ عقیدت ،محبت اور ایمان  کا رشتہ ہے۔
آج جب مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے عزائم بڑھ رہے ہیں اور عالمی طاقتیں اپنے پنجے گاڑنے کے لیے سرگرم ہیں، ایسے وقت میں پاکستان اور سعودی عرب کا ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ایک تاریخ ساز اعلان ہے۔ یہ صرف عسکری معاہدہ نہیں، بلکہ پوری مسلم امہ کے اجتماعی دفاع کی صدا ہے، ایک ایسی صدا جس کے پیچھے کروڑوں دلوں کی دعائیں اور جذبے شامل ہیں۔
پاکستان اپنی ناقابلِ تسخیر فوج، ایٹمی قوت اور بے مثال جنگی تجربات کے ساتھ سعودی عرب کے لیے فولاد کا بازو ہے۔ اور سعودی عرب اپنی تیل کی دولت، مالی طاقت اور عالمی اثرورسوخ کے ساتھ پاکستان کے لیے معاشی سہارا اور سفارتی پشت پناہ ہے۔ یہ دو بازو جب ملتے ہیں تو امتِ مسلمہ کا ایک فولادی حصار تشکیل پاتا ہے جسے توڑنا کسی طاقت کے بس میں نہیں۔
قارئین! ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ (7 مئی تا 10 مئی) میں پاکستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ صرف دفاع نہیں بلکہ جارح دشمن کو اس کی سرزمین پر جا کر جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنی مہارت اور شجاعت سے بھارت کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ کامیابی محض عسکری کارنامہ نہیں بلکہ ایک اعلان تھا کہ پاکستان خطے کی ناقابلِ تسخیر قوت ہے۔
اس شاندار فتح کے پیچھے فیلڈ مارشل جنرل سید حافظ عاصم منیر کی حکمتِ عملی، جرآت مندانہ فیصلے اور آپریشنل ہم آہنگی کارفرما تھی۔ ان کی قیادت نے پاک فوج، فضائیہ اور بحریہ کو ایک لڑی میں پرو دیا اور دشمن کی چالوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ یہی بصیرت سعودی عرب کے ساتھ اس دفاعی معاہدے کے پس منظر میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
یہ معاہدہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں، بلکہ ایران، ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے لیے بھی دعوتِ فکر ہے کہ آئیں، امتِ مسلمہ ایک مشترکہ سلامتی کے پلیٹ فارم پر جمع ہو۔ اگر ہم نے اس اتحاد کو مضبوط کر لیا تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں توڑ نہیں سکتی۔
گزشتہ برسوں میں دنیا پاکستان کو صرف دہشت گردی کی لپیٹ میں گھرا ہوا اور معاشی بحرانوں کی دلدل میں پھنستا ہوا ملک کے طور پر دیکھتی تھی، مگر آج وہی دنیا پاکستان کو ایک ذمہ دار، باوقار اور خودمختار ریاست کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ یہ سب فیلڈ مارشل جنرل سید حافظ عاصم منیر کی متوازن قیادت کا ثمر ہے جنہوں نے دنیا کو دکھایا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ صرف عسکری اتحاد نہیں بلکہ ایک روشن مستقبل کا عہد ہے۔ یہ اتحاد معیشت، سیاست اور ٹیکنالوجی میں بھی نئے دروازے کھولے گا۔ سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، تعلیمی  تبادلے امت کے رشتے کو مزید گہرا کریں گے، اور مشترکہ منصوبے دنیا کو یہ باور کرائیں گے کہ مسلم امہ صرف خواب دیکھنے والی قوم نہیں بلکہ خواب کو حقیقت بنانے کی قوت بھی رکھتی ہے۔
آخر میں، میں اپنے قارئین سے یہ کہنا چاہوں گا کہ دفاع صرف بارود اور توپ کے گولوں میں نہیں ہوتا۔ اصل دفاع اس اتحاد میں ہے جو دلوں کو جوڑ دے، قوموں کو قریب کر دے اور ایمان کی ڈور میں باندھ دے۔ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ معاہدہ امت کے لیے امید کی کرن ہے۔ یہ کرن اندھیروں کو چیر کر روشنی لاتی ہے، یہ کرن امت کو پیغام دیتی ہے کہ اگر ہم ایک ہیں تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔
یقین جانیے، آنے والے دنوں میں یہ اتحاد صرف خطے کے نہیں بلکہ پوری دنیا کے سیاسی اور عسکری نقشے کو بدل دے گاان شاء اللہ۔ پاکستان اور سعودی عرب — یہ دو بھائی دراصل ایک ہی بدن کی دو سانسیں ہیں، ایک ہی چراغ کی دو لوئیں ہیں، اور ان کا یہ دفاعی پیمان امتِ مسلمہ کے فولادی حصار کی ضمانت ہے۔








