پاکستان ترکیہ تعلقات
ضیاء الحق سرحدی، پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدارتی محل میں ترکیہ کے صدر طیب اردوان سے ملاقات میں پاکستان اور ترکیہ نے توانائی، معدنیات اور آئی ٹی شعبہ میں تعاون پر اتفاق جبکہ انقرہ نے دفاعی شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے 13 فروری 2025ء کو اسلام آباد میں منعقدہ 7 ویں اعلیٰ سطح اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کے فیصلوں کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لیا اور پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کثیر جہتی دو طرفہ تعاون کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور صدر اردوان نے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال اور قومی مفاد کے امور پر ایک دوسرے کی حمایت کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے غزہ میں انسانی صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی اور متاثرہ آبادی کو انسانی امداد کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ صدر اردوان نے فلسطین کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت اور انسانی امداد کو سراہا۔ خطے میں امن، استحکام، ترقی اور خوش حالی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان اور ترکیہ میں اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدر طیب اردوان سے ملاقات دو طرفہ تعلقات، پاکستان میں سرمایہ کاری کے عمل، دہشت گردی کے سدِ باب، دفاعی تعاون اور غزہ میں پیدا شدہ انسانی المیے کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تاریخی اور مثالی تعلقات مشترکہ مذہب، ثقافت، لسانی رابطے مضبوط بنیاد پر استوار اور دونوں ممالک میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے مبرا ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کا رشتہ صدیوں پرانا اور گہرا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف تاریخی تعلقات ہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں بھی ایک مضبوط رشتہ قائم ہے۔ گزشتہ 75 سالوں کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے رہنماؤں کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی خوشگوار رہے ہیں، لیکن اردوان اور شہباز شریف کی ذاتی دوستی نے اس رشتے کو ایک نیا معنی دیا ہے۔ دونوں رہنما ایک دوسرے کی قیادت کی قدر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ملک کے مفادات کے لیے ایک مضبوط حمایت کا نشان ہیں۔ اردوان اور شہباز شریف کے تعلقات میں جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے تجربات اور کامیابیوں کا احترام کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے کئی بار اردوان کی قیادت اور ترکیہ کی ترقی کی تعریف کی ہے اور ان کے ساتھ تعاون کے امکانات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ دوسری طرف اردوان نے بھی پاکستان کے معاشی چیلنجز میں اس کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے ہمیشہ اپنے ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان اور ترکیہ جموں و کشمیر اور شمالی قبرص سمیت بنیادی قومی مفاد کے تمام معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان میں حکومت کسی کی بھی ہو، اس کے ترکی کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ تجارت سے لے کر فوجی تربیت اور فوجی معاہدوں تک دونوں ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ نے ہمیشہ ایک دوسرے کے علاقائی تنازعات میں بھی حمایت کی ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو آرمینیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے۔ پاکستان، ترک اتحادی آذربائیجان کی جانب سے ناگورنوکرباخ کے متنازعہ علاقے پر دعوے کی بھی حمایت کرتا ہے۔ جواب میں ترکی کھلم کھلا کشمیر کی اتنی حمایت کرتا ہے کہ وہ بھارت کو برہم کرتی ہے کیونکہ وہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے اور اردوان کی حمایت کو کھلے عام مداخلت قرار دیتا ہے۔ دونوں ممالک کا فلسطین کے تنازعے پر بھی موقف یکساں ہے۔ پاکستان اور ترکیہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کسی ایسے سیاسی تصفیے کی حمایت نہیں کرتے جو فلسطینی عوام کی حمایت نہ کرتا ہو۔

پاکستان، ترکیہ کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھا کر عالمی سطح پر کئی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح ترکیہ بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کر کے کئی مسائل و مشکلات سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ سابق حکومتیں دوست ممالک، بالخصوص خلیجی ریاستوں، ترکیہ کے ساتھ انتہائی گہرے دوستانہ تعلقات میں پوشیدہ صلاحیتوں کو پوری طرح کھولنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے باہمی فائدہ مند معاشی شعبے سے بھرپور مستفید ہونے کے لیے دفاعی اہداف کے ساتھ ساتھ معاشی اہداف کو بھی اپنی اولین ترجیح بنا رکھا ہے۔

حکومت پڑوسیوں، علاقائی شراکت داروں اور دوست ممالک پر بھرپور توجہ مبذول کر کے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے جامع حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان میں ترکیہ کے سرمایہ کاروں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسی طرح پاکستانی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد ترکیہ میں کاروبار کر رہی ہے اور وہاں کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ترقی کے لیے وسائل موجود ہیں۔ اگر وہ تعمیر و ترقی کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کریں اور اس پر عمل درآمد کا شفاف نظام بنائیں تو دونوں ملک آنے والے چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ پاکستان کی معیشت کو اس وقت سیاسی استحکام اور سرمائے کی اشد ضرورت ہے۔ ترکیہ اور عرب ممالک سرمائے کی کمی کو پورا کرنے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پاکستان اور ترکیہ کے سامنے اس وقت دو مرکزی چیلنج ہیں، ایک تجارت اور دوسرا اقتصادی سرمایہ کاری۔ ان گنت ایسی ترک کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان متعدد شعبوں میں شریک کار ہیں، خصوصاً دفاعی حوالے سے۔ ان گہرے تعلقات سے ہم مزید فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی زراعت کو جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ترکیہ کی زرعی ترقی و صنعت سازی سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور اسی طرح تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں بھی تعاون کی وسیع تر گنجائش موجود ہے۔ ترکیہ اگلے دو تین سالوں میں پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دے کر کم از کم پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا خواہاں ہے کیونکہ تجارت کا موجودہ حجم دونوں ممالک کی اصل صلاحیت سے بہت کم ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ نجی کاروباری طبقے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ترکیہ کے ساتھ تجارت کو بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان کے پاس اس ضمن میں سیکھنے اور تعاون کے لیے بہت کچھ ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کی بڑی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ممالک مل کر بہت سی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان ترکیہ سے جدید ٹیکنالوجی، خصوصاً زراعت اور تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز اگر ایک دوسرے سے تیز رفتاری سے تعاون بڑھائیں تو پاکستان معاشی، اقتصادی اور صنعتی لحاظ سے ملک کو مضبوط بنانے کی اس منزل کو چند سالوں میں چھو سکتا ہے، جس کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے۔

Shares: