پاکستانی بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور اس لیے ہیں کہ”اس کی اولین وجہ غربت بھی ہے،شعور کی کمی بھی،ہر پاکستانی ہنرمند،لاتعداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔”لیکن اس کے باوجود اپنے ملک کی ترقی و بقاء کے لیے کچھ کرنے کی چاہ ہونے کے بجائے، دوسرے ملک رہائش پذیر ہونا اولین ترجیحات میں شامل کر لیتا ہے۔ہر پاکستانی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوراً دوسرے ملک جا کر اپنے ہنر کے جوہر دکھانا چاہتے ہیں۔”مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بھی اعلی تعلیم یافتہ تھے۔لیکن انھوں نے قلم کے ذریعے کروڑوں دل میں روشنی کے دیپ جلائے،آزادی کی شمع،قید سوچوں کے محور کو نئی امنگوں میں ابھارا تھا۔”اپنی شاعری سے مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں۔”تو کیا آج کی نوجوان نسل اپنے ہنر سے اپنے ملک کی ترقی، استحکام اور خوشحالی کے لیے کچھ کرنےکی ہمت کیوں نہیں کرتےہیں۔اپنے ہنر کا استعمال اپنے ملک کی ترقی، کی بجائے دوسرے ملک جانے کو درجی دینا ضروری سمجھتے ہیں۔”اور اس کا الزام بھی ملک کے حکمرانوں کو دیتے ہیں۔”اگر حکمران کچھ نہیں کر رہے،تو مطلب عوام دوسرے ملک بھاگ جائے۔یہ تو کوئی مشکلات کا حل نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان موجود ہیں۔لیکن کہتے ہیں ملک میں بیروزگاری عام ہے۔ملک میں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے۔”اس لیے لاکھوں روپے کا قرض اٹھا کر دوسرے ملک روزگار کی تلاش و معاش کے لیے اپنے پیاروں سے دور جانے کو تو تیار ہو جاتے ہیں۔لیکن وہی لاکھوں روپے پاکستان میں لگانے کو تیار نہیں،حالانکہ وہی پیسے پہاں لگا کر نہ صرف اپنے لیے کاروبار کی صنعت لگا کر اپنے ساتھ ساتھ بہت سے اور بے روزگاروں کو بھی روزگار فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔”پاکستان میں زیادہ تر غریب طبقہ افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ نہ تو ان کے پاس اچھی تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت ہوتی ہے، اور نہ ہی بنا تعلیم کے انھیں نوکریاں کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔اس لیے وہ پاکستان کو چھوڑ کر دوسرے ملک ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کئی پاکستانی بیرون ممالک ویزہ لے کر چلے جاتے ہیں اور کئی بیچارے مجبور ہو کر تو غیر قانونی راستے اختیار کر لیتے ہیں۔”جس کی وجہ سے بہت بار کئی پاکستانیوں کو اپنی مال اور جان دونوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔کئی ماؤں کے لخت جگر موت کی لپیٹ میں گہری نیند کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔”جن میں سے کچھ کی تو لاشیں بھی روپوش ہو جاتی ہیں،اور کچھ والدین ہی اپنے پیاروں کا آخری دیدار نصیب ہوتاہے۔”جو پاکستانی غیر قانونی طریقے سے خیر و عافیت سے دوسرے ملک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ان میں سے بھی کچھ وہاں کی ایمبیسی کے ہاتھ لگ جانے پر ساری زندگی تاریک قید خانوں میں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جو روزگار تلاش و معاش میں تھوڑے بہت کامیاب ہو جاتے ہیں،تو وہ ساری زندگی چھپ چھپ کر اور ڈر ڈر کر کے ہر لمحہ گزارتے رہتے ہیں۔ہر لمحہ پکڑے جانے کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے،اور گھر والے پرسکون ہو جاتے ہیں،کہ ان کے لخت جگر ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے دوسرے ملک پیسے کما رہا ہے،لیکن وہ اس بات سے بالکل بھی واقف نہیں ہوتے ،کہ ان کا لخت جگر وہاں کن مشکلات کا سامنا کر کے،اپنی زندگی داؤ پر لگا کر، ان کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی کو کن خطرات میں ڈال رہا ہے۔

"پاکستانی بیرون ملک ہجرت کرنے کو آسان سمجھتے ہیں،جبکہ اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں افسران کی غلامی کرنے س،انھیں فخر محسوس ہوتا ہے۔حالانکہ ہمارے ملک میں جتنی زیادہ قابلیت موجود ہے اتنی قابلیت کسی بھی ملک کے نوجوان نسل میں موجود نہیں ہے۔ہمارے ملک کے ہنر سے دوسرے ممالک کے حکمران اور عوام مستفیض ہو رہے ہیں۔لیکن وہی ہنرمندی،صلاحیت،قابلیت اور ذہانت کا مظاہرہ پاکستانی دوسرے ممالک میں اپنی جیب سے اخراجات کر کے انھیں تو ترقی یافتہ بنانے میں دن رات مشقت کر رہے ہیں۔”اپنا سکون،اپنی آزادی،اپنے پیاروں سے دور رہنا اور کتنی ہی مشکلات اس بیرون ملک کی ہجرت میں وہ برداشت کرنا گوارا کر لیتے ہیں۔پر اپنے ملک میں بہتری کی ایک لوع جلانا انھیں مشکل لگتا ہے۔

ہمارے حکمران عوام کی معاشی بحران بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اور عوام ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں،خامشی سے سب قبول کر رہی ہے۔اگر حکمرانوں کے ناجائز ٹیکس لینے پر عوام یک آواز ہو کر نہ دینے کا احتجاج کر دے تو کوئی حکمران ناجائز طریقے سے عوام کو لوٹنے کی کوشش نہیں کر سکتا ہے۔اور انہی معاشی مسائل نے پاکستانیوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔لیکن یہاں صرف حکمران ہی ذمہ دار نہیں ہیں،بلکہ عوام بھی برابر کی شریک ہے،ہر آنے والے دنوں میں ٹیکسوں کی لاگت میں اضافے ہو رہے ہیں۔لیکن عوام ٹیکس ادا کرنے کو تیار ہیں،آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔جب ملک میں پہلی بار ٹیکس نافذ کیا گیا،اگر تب عوام اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی تو آج یقیناً عوام کے ساتھ اتنی نا انصافی نہ برتی جاتیں،ان ٹیکسوں سے ملک کی بھلائی اور بہتری کے لیے کچھ کرنے کے بجائے، حکمران اپنی تجوریاں بھرنے میں گامزن ہیں۔
"حالات حاضرہ میں ان حکمرانوں کے خلاف کوئی کارروائی ہو ایسا عوام چاہتی ہی نہیں،بلکہ حکمرانوں کے ہر ناجائز طریقے کار پر مجبور اور زبان جیسی نعمت ہوتے ہوئےبھی،گونگے بن کر ہر اشارے پر عمل درآمد ہو جانے کو تیار رہتے ہیں۔”کیا ایسے ہی حالات کے لیے مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے الفاظ کو قلم بند کیا تھا،اقبال کا خواب روشن پاکستان کا تھا۔جس کے لیے ہمارے قائد نے ہماری افواج اور بزرگوں نے لاکھوں قربانیاں پیش کی تھیں۔

Shares: