ہم پاکستانی کب بنیں گے؟ تجزیہ :شہزاد قریشی

0
71
qureshi

(تجزیہ شہزاد قریشی)
امریکی انتخابات عالمی دنیا کی اس وقت توجہ کا مرکز ہیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی نظریں وائٹ ہائوس کے نئے مکین پر لگی ہیں۔ امریکہ سپُرپاور ہے امریکی صدارتی امیدواروں کی توجہ امریکی عوام ، معیشت ، خارجہ پالیسی ، جدید سے جدید ٹیکنالوجی ، موسمیاتی تبدیلی ،دفاع اور نیٹو، عالمی صحت اور وبائی امراض کی روک تھام ، امیگریشن بارڈر سیکورٹی ، اسرائیل غزہ اور مشرقی وسطی ، روس یو کرین جنگ، تجارت ، موضوع ہیں۔

ہماری پارلیمنٹ کا موضوع آئینی تبدیلی ، جلسے ،جلوس ،دھرنے کمیٹیاں ، ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں ، ملازمت میں توسیع ، بحیثیت قوم ہم قوم اورپاکستانی نہیں کوئی بلوچی ، کوئی سندھی ، کوئی کے پی کے ، کوئی پنجابی کی صدائیں بلند کرتا نظر آرہا ہے کہیں سے بھی میں پاکستانی ہوں کی صدائیں بلند ہوتی نظر نہیں آرہی۔ عالمی دنیا کو ایک طرف رکھیں ۔ ہمارے قریب ترین ممالک ایران کسی اپلائی سے سوال کریں وہ اپنا تعارف ایرانی بتانے پر فخر محسوس کرتا ہے ۔ افغانستان افغانی جبکہ ہمارے ہاں اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ایک صوبہ کی حکومت نے خارجہ پالیسی کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ کے پی کے کی حکومت افغانستان سے مذاکرات کا اعلان کرتی ہے۔ لگتاہے ہم مخلوق خدا ضرور ہیں مگر ایک قوم نہیں۔ ہم خدا کی زمین پر حکمرانی کرتے ہیں مگر طرز حکمرانی خداکے حکم کو نظر انداز کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جس پارلیمنٹ میں بیٹھی ہیں۔یہ 1970 کے اُن سیاستدانوں کو ضرور یاد کریں کیا اُن سیاستدانوں کا ملک وقوم کو لے کر کردار یہ تھا؟

حکمرانوں کولیکر اپوزیشن اور اپوزیشن کو لیکر مذہبی جماعتوں تک نے مسخرے پن کی حدود کو کراس کردیا ہے۔یہ ریاست اور ملکی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ملکی اداروں پی آئی اے اور دیگر اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ ملکی وسائل سے توجہ ہٹا دی گئی ہے ۔ خدا کی پناہ عالمی دنیا میں یہ آواز کہیں سے نہیں آتی کہ یہ جج میرا یہ جج تیرا ،عدلیہ جیسے ادارے اور ملکی سلامتی جیسے اداروں کو جلسے،جلوسوں ،چوراہوں ، گلی کوچوں اور سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا لیا گیاہے ۔یہ جانتے ہوئے کہ وطن عزیز اور عوام کو معاشی بُحران کا سامنا ہے پارلیمنٹ میں بہت سے نام نہاد رہنما ہیں کسی نے معاشی بُحران کا حل پیش نہیں کیا آج کی سیاست ،آج کی جمہوریت ، آج کی پارلیمنٹ ،ایک افسوسناک عکاس ہے۔ کسی کی توجہ معاشی بُحران نہیں ذاتی بُحران ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس میں لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ موجودہ حالات میں وطن عزیز میں جمہوریت کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
دل تباہ تو ہی کچھ بتا ہمیں
چمن پہ کیوں خزاں کا رنگ چھا گیا

Leave a reply