پاکستان کی فیصلہ کن فتح اور عربوں کی خاموشی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفی بڈانی
2025 کا پاک،بھارت تنازعہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کے طور پر ابھرسامنے آیا ،کیا یہ صرف ایک عسکری تصادم تھا یا اس نے خطے کے طاقت کے توازن کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا؟ پہلگام میں ہونے والے مودی سرکار کے فالز فلیگ آپریشن یا دہشت کردی کی کارروائی سے شروع ہونے والی یہ کشیدگی، "آپریشن بنیان مرصوص” کی صورت میں پاکستان کی غیر متوقع، فیصلہ کن اور کامیاب جوابی کارروائی میں تبدیل ہوئی، جس نے نہ صرف بھارت کی جارحیت کو ناکام بنایا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی عسکری صلاحیت اور سفارتی بصیرت کو نمایاں کر دیا۔ لیکن اس فتح کی کہانی صرف میدان جنگ تک محدود نہیں بلکہ اس میں عرب دنیا کی معنی خیز خاموشی جیسے اہم سوالات بھی پوشیدہ ہیں سوالات جو خطے کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے، عالمی اتحادیوں کے کردار اور مستقبل کی سمت کے بارے میں گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔

اس تنازع کے دوران پاکستان نے ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان سے فعال حمایت حاصل کی،سیزفائرکے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ان ممالک کے دورے کیے، جبکہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے چین سے مضبوط تعاون حاصل کیا۔ ترکیہ، ایران، اور آذربائیجان نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی جبکہ چین نے سیاچن اور لداخ میں بھارت کے خلاف محاذ کھول کر اپنا کردار ادا کیا۔ الجزیرہ نے 10 مئی 2025 کو رپورٹ کیا کہ ایران نے پاک بھارت تنازع میں غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ بیجنگ کے سہ فریقی اجلاس نے پاک-افغان تعلقات کی بحالی کی راہ ہموار کی۔ تاہم، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کی غیر جانبداری نے سوالات اٹھائے۔ تاریخی طور پر پاکستان نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں عرب ممالک سے سفارتی اور عسکری حمایت حاصل کی تھی۔ سعودی عرب نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا ساتھ دیا، مالی امداد فراہم کی جبکہ ایران نے اسلحہ اور تیل دیا۔ بدلے میں پاکستان نے فلسطین کے لیے عرب ممالک کی حمایت کی اور سعودی عرب میں فوج تعینات کی۔ لیکن 2025 میں عرب ممالک کی غیر جانبداری ان کے بھارت کے ساتھ بڑھتے معاشی تعلقات کی وجہ سے تھی۔ ٹیلی گراف نے 11 مئی 2025 کو رپورٹ کیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بھارت کے ساتھ 50 ارب ڈالر سے زائد کی تجارت اور سرمایہ کاری نے ان کے فیصلوں کو متاثر کیا۔ ابراہم معاہدوں کے بعد متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ تعاون بھی اس معاشی ترجیح کی عکاسی کرتا ہے۔

عالمی سفارتی نقشہ دو واضح بلاکس میں تقسیم ہو تا ہوا واضح نظر آرہا ہے ایک طرف چین، روس، ترکیہ، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک پاکستان کے ساتھ ہیں اور دوسری طرف امریکہ، یورپ اور بھارت مغربی مفادات کے ساتھ ہیں۔ فوٹو نیوز نے 12 مئی 2025 کو رپورٹ کیا کہ امریکہ کی ثالثی اور غیر جانبداری پاکستان کی سفارتی کامیابی تھی۔ تاہم، عرب ممالک کی غیر جانبداری ایک چیلنج ہے۔

اگر بھارت دوبارہ جارحیت کرتا ہے تو ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور چین پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے، جیسا کہ آئی آر آئی اے نے 11 مئی 2025 کو رپورٹ کیا کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے شہباز شریف سے ملاقات میں غیر مشروط حمایت کا وعدہ کیا۔ قطر محدود سفارتی حمایت دے سکتا ہے کیونکہ اس نے ماضی میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھے ہیں۔ پاکستان کو عرب ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے لیے معاشی تعاون کو ترجیح دینی چاہیے، جیسے کہ سی پیک میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے پاک-سعودی جوائنٹ انویسٹمنٹ فنڈ قائم کرنا۔ ویژن 2030 کے ساتھ توانائی اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں شراکت داری کی جانی چاہیے۔ اسلامی تعاون تنظیم میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو مشترکہ ایجنڈے کے طور پر اٹھایا جائے۔ قطر کے ساتھ توانائی اور دفاعی معاہدوں کو وسعت دی جائے۔ سعودی عرب کے ساتھ عسکری تربیتی پروگراموں اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدوں کو مضبوط کیا جائے۔ پاک عرب ثقافتی میلے، تعلیمی وظائف اور میڈیا کے ذریعے عرب عوام کے ساتھ رابطے بڑھائے جائیں۔

آپریشن بنیان مرصوص محض ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا فیصلہ کن لمحہ تھا جس نے نہ صرف دشمن کی جارحیت کو ناکام بنایا بلکہ عالمی برادری کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان اپنے دفاع، خودمختاری اور خطے کے امن کے لیے ہر سطح پر تیار ہے۔ اس کامیابی نے پاکستان کی عسکری برتری اور سفارتی بصیرت کو نمایاں کیا، مگر ساتھ ہی عرب دنیا کی خاموشی نے یہ اہم سوال بھی اٹھایا کہ آیا مذہبی اور ثقافتی قربتیں عملی حمایت میں کیوں نہیں بدل سکیں۔ یہ لمحہ اس امر کا متقاضی ہے کہ پاکستان اب محض عسکری طاقت پر نہیں بلکہ فعال، وسعت پذیر اور دور اندیش سفارت کاری پر بھی انحصار کرے۔ عرب ممالک کے ساتھ معاشی، ثقافتی اور سفارتی روابط کو ازسرنو ترتیب دینا ہو گا تاکہ محض عوامی ہمدردی نہیں، بلکہ حکومتی سطح پر عملی حمایت بھی حاصل ہو۔ اسی کے ساتھ ساتھ ترکیہ، ایران، چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ موجودہ اشتراکِ عمل کو مزید وسعت دینا ہوگی تاکہ پاکستان آئندہ کسی بھی بحران میں نہ صرف تنہا کھڑا ہو بلکہ پورے خطے کو اپنے ساتھ لے کر ایک مؤثر اور متوازن عالمی کردار ادا کر سکے۔ 2025 کی فتح کو ایک مستقل حکمت عملی کی بنیاد بنا کر ہی پاکستان خطے میں پائیدار امن اور قومی وقار کا علم بلند رکھ سکتا ہے۔

Shares: