پاکستان بار کونسل نے مجوزہ آئینی ترمیم کو خفیہ رکھنے اور اس کے منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس بلانے کے طریقہ کار پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک اہم اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا جس میں اس معاملے پر حکومت کے اقدامات کو پارلیمانی روایات، اقدار اور قانون کی حکمرانی کے منافی قرار دیا گیا۔اعلامیہ کے مطابق بار کونسل نے آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت کی پالیسی اور اس کی منظوری کے عمل پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی ترمیم، جو کہ ملک کے قانونی اور آئینی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے، اسے اس طرح خفیہ نہیں رکھا جانا چاہیے۔ عوامی نمائندگان کو اس معاملے پر مکمل معلومات فراہم کی جانی چاہئیں تاکہ وہ اپنی رائے آزادانہ اور دانشمندانہ طریقے سے دے سکیں۔
اجلاس کے دوران 26 ویں مجوزہ آئینی ترمیم کا شق وار جائزہ لیا گیا۔ بار کونسل نے مجوزہ آئینی مسودے پر کئی سوالات اٹھائے اور اسے مزید گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بار کونسل کے مطابق آئینی ترمیم جیسے حساس معاملات کو تمام متعلقہ فریقوں کی شمولیت اور مکمل شفافیت کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے، تاکہ ملک کے جمہوری عمل اور آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔پاکستان بار کونسل نے مزید کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے دوبارہ اجلاس 25 ستمبر کو ہوگا، جس میں ترمیم کی تجاویز کا مزید تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ بار کونسل نے واضح کیا کہ یہ ترمیم بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے قانونی و آئینی پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے بار کونسل حکومت سے مزید وضاحت اور شفافیت کا مطالبہ کرے گی۔
بار کونسل کا موقف ہے کہ مجوزہ ترمیم کے اطراف میں خفیہ رویہ جمہوری اقدار اور پارلیمانی عمل کے خلاف ہے، اور اسے اس طریقے سے آگے نہیں بڑھایا جانا چاہیے۔ آئینی ترمیمات کو خفیہ رکھنے سے عوامی اعتماد مجروح ہوسکتا ہے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔بار کونسل نے اس معاملے کو قومی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ آئینی ترمیمات کے معاملے میں مکمل شفافیت اختیار کرے اور پارلیمانی عمل کے ذریعے اس کی منظوری کو یقینی بنائے۔

Shares: