سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ پلوشہ خان کمیٹی اجلاس میں تھیں علیم خان وفاقی وزیر بھی تھے وہاںجھڑپ ہو گئی،اتنی شدید کہ وہاں سوشل میڈیا پر ویڈیو ڈلنا شروع ہو گئی ،ہم قائدین کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں رہنمائی دیں گے لیکن یہ دونوں آپس میں کیوں لڑے، ایک ایسی پارٹی کے ساتھ جس کے اتنے زیادہ ممبر بھی نہیں،کوئی اتنے اختلاف بھی نہیں،تو آج پلوشہ خان نے مجھے جوائن کیا ہے ان سے پوچھیں گے
مبشر لقمان آفیشیل یوٹیوب چینل پر پیپلز پارٹی کی رہنما،سینیٹر پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ کوئی ایسی بات نہیں تھی، بطور رکن پارلیمنٹ ہم کارکردگی، ایشوز پر سوال کرتے ہیں، سوال کرنا ہر ممبر کا حق ہے، پہلا گھنٹہ سوال جواب کا ہوتا ہے اور اس میں وزیر ہی جواب دیتا ہے، میں نے کمیٹی میں سوال ڈالا لیکن جواب نہیں ملا، سوال بھی کئی ماہ قبل ڈالنا پڑتا ہے، سینیٹ کے سوالات وجوابات کے سیشن میں سوال کا جواب نہیں آیا تو میں نے چیئرمین کمیٹی کو کہا کہ اس کو ایجنڈے کا حصہ بنائیں، آج سوال ایجنڈا آئٹم تھا وہ ایک روڈ پر تھا،ایک روڈ تھی ہڈیارہ کے اوپر سے جو ان کی سوسائٹی سے بھی ملتی ہے، میں نے سوال کیا کہ آپکی سوسائٹی کو فائدہ ہے یا نہیں، این ایچ اے نے عوامی پیسہ لگایا،اس پر وفاقی وزیر نے بریفنگ شروع کی اور اپنا بتایا ،انہوں نے گوگل میپ کھولا اور بتایا کہ روڈ کے دس گیارہ کلومیٹر کے بعد میری سوسائٹی آتی ہے، اس پر میرے سمیت کسی نے کوئی مزید سوال نہیں کیا،اسکے بعد انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ منسٹری میں ایسے چلاتا ہوں جیسے ہاؤسنگ سوسائٹی ،پھر انہوں نے کہا کہ میری ذات پر سوال کیسے کیا گیا، اس وقت مجھے یاد آیا کہ میرا ایجنڈا آئٹم تھا میں نے کہا کہ میرا حق ہے سوال کرنا اور آپ کا کام ہے جواب دینا، اب پتہ نہیں ان کو کیا مسئلہ تھا وہ بتاتے تو شاید ہم کوئی مدد کر سکتے، لیکن پھر انہوں نے کہا کہ اگر آپ سوال کریں گے تو میں آپ کی ذات پر بات کروں گا جس پر میں نے کہا کہ فورم موجود ہےبولیں ،میں کوئی وزیر نہیں ہوں میرے اوپر اربوں کی کرپشن نہیں ہے، سوال کرنے کا حق میرا آپ وزیر ہیں، اس بات پر وہ تمام حدود پار کر گئے،وزیراعظم کی کابینہ ہے تو وزیراعظم کو بنیادی جمہوری اصول انہیں بتانا چاہئے کہ تمام وزرا پارلیمنٹ کو جواب دہ ہیں، میں نے کبھی ذاتی فیور لی ہوتی،کبھی انکے دفتر گئی ہوتی تو وہ بات کرتے، میں نے عوامی مفاد میں بات کی،میرا کبھی ان سے کوئی اختلاف نہیں ہوا،سمجھ نہیں آئی کہ ایسی صورتحال کیوں بنی.
وزیراعظم کو تمام وزرا کو تاکید کرنی چاہئے کہ وہ وزرا کو سوالات کا جواب دینے کا پابند بنائیں،پلوشہ خان
ایک سوال کے جواب میں پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ میں نے سوال کیا این ایچ اے نے روڈ بنائی،آیا اس روڈ سے پارک ویو سوسائٹی کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں، بس یہی سوال تھا ، جس پر مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ میں اگر ہوتا تو مجھے بھی غصہ چڑھتا،میں یہ ضرور کہتا کہ صرف میری سوسائٹی نہیں دو ہزار سوسائٹیوں کو روڈ جا رہی ہے، جس پر پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ وہ بھی کہہ سکتے تھے ،ہر وزیر کو جواب دینا ہوتا ہے، انہوں نے جو بھی کیا وہ بہتر بتا سکتے ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ وزیراعظم کو تمام وزرا کو تاکید کرنی چاہئے کہ وہ وزرا کو سوالات کا جواب دینے کا پابند بنائیں، سینیٹ کے اراکین میرے آنے کے بعد آ گئے، علیم خان نے یہ بھی کہا کہ سب بلیک میلر اور بے ایمان لوگ اکٹھے ہو کر سوال کرتے ہو ،جس کے بعد اراکین آ گئے، پارٹی نے بھی میرا ساتھ دیا، شازیہ مری نے مذمت کی، خواتین کا ذاتیات سے سوالوں سے کیا تعلق ہے، یہ ایک ایسی تڑی ہے جو دے کر سمجھیں گے کہ اگلے چپ کر جائیں گے، ہم نے تو سوال کیا کسی نے بلیک میل کیا ہے تو وہ علیم خان ہی بتا سکتے ہیں،وہ خود ہی بتا سکتے ہیں کہ لوگ انکو بلیک میلر کیوں کہتے ہیں،
این ایچ اے پر سوال کیا،جو میرا حق اور جواب دینا وزیر کا کام ہے،پلوشہ خان
پلوشہ خان کا مزید کہنا تھا کہ جب انہوں نے بدتمیزی کی تو میرا کام بھی جواب دینا تھا میں نے بھی اونچا بول کر جواب دیا، میں اپر ہاؤس کی ممبر ہوں، دوسری پارٹی کی ممبرہوں ،میں این ایچ اے پر سوال کر رہی تھی، ان کی ذات پر نہیں کر رہی تھی،وہ مجھے روک نہیں سکتے میں کل بھی دس سوال لے کر آجاؤں گی،وزیر کا کام جواب دینا ہے کہ کیا حقیقت ہے کیا نہیں،میں سوسائٹی پر سوال نہیں کر سکتی، کر بھی سکتی ہوں اگر عوامی نوعیت کا ہو، میں نے ان کی سوسائٹی کے ڈوبنے پر سوال نہیں کیا، این ایچ اے کے پیسوں سے بنے روڈ پر سوال کیا وہ بہتر بتا سکتے ہیں،ایک اور بات بتاؤں یہ اس وقت ایجنڈا کا آئٹم تھا،قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا،پرویز رشید اس دوران خاموش رہے، اسکے بعد معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور کہا کہ سوال آیا تو جواب آ گیا،مبشر لقمان صاحب میں آپ سے بھی سوال کر سکتی ہیں آپ عوامی فورم پر ہیں آپ نے یہ والاپروگرام کیا،لیکن میں یہ کہوں کہ جرات کیسے ہوئی،یہ تو نہیں ہو سکتا، سوال کرنا میرا حق،جواب آ گیا، اوکے، میں نے کاؤنٹر سوال بھی نہیں کیا، اسکے باوجود غصے میں آ جانا، یہ کیا ہے،لوگ ہوں گے بلیک میلر ،لیکن ہم ان میں شامل نہیں
علیم خان آج صرف دوسری بار قائمہ کمیٹی اجلاس میں آئے،پلوشہ خان کا انکشاف
پلوشہ خان کا مزید کہنا تھا کہ جب روٹین کی میٹنگ ہوتی ہے تو بہت سوال اٹھتے ہیں،وہ آج دوسری بار آئے ہیں صرف، کسی ممبر نے کہا بھی تو انہوں نے کہا کہ جب میں پاکستان میں ہوں تو آ جاتا ہوں، اب آپ یہ دیکھ لیں، قائمہ کمیٹی میں تو بہت سخت سوال ہوتے ہیں، میں خود ایک کمیٹی چیئر کرتی ہوں، ہم ہر ایک چیز ادھیڑ دیتے ہیں لیکن ہمیں جواب ملتا ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ ذاتیات آپ کی کھول دیں گے،میری ذاتیات کا این ایچ اے سے کیا تعلق ہے
عام آدمی اگر کوئی سوال کرے تو اس کے ساتھ کیا ہو گا،وزیر کوجواب تو دینا پڑے گا،پلوشہ خان
پلوشہ خان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی رپورٹس میں نہیں بناتی ،نہ میرا ہاتھ تھا اب اگر کل میں اٹھاؤں جو کچھ اس میں ہے تو کیا کہا جائے گا کہ میرا حق نہیں،اتنا بھی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا کہ سبھی فرعون بن جائیں، وزیر کو جواب دینا پڑے گا، میں سوال کرتی رہوں گی، میں مختلف وزارتوں پر سوال ڈالتی ہوں، سب سوال کرتے ہیں،اگلی میٹنگ میں علیم خان نے نہیں آنا تو نہ آئیں، چیئرمین کمیٹی کا کام ہے کہ اپنےا راکین کی عزت کا لحاظ کریں، میں سینیٹ کی ممبر ہوں، عام آدمی اگر کوئی سوال کرے تو اس کے ساتھ کیا ہو گا، ریاست مدینہ بنانے والوں کے ساتھ بھی تھے تو بتائیں سوال کیوں نہیں ہو سکتا، اصل مدینہ کی ریاست میں تو سوال ہوتے تھے،یہ کوئی اتنا بڑا ذاتیات کا سوال نہیں تھا، این ایچ اے کسی کی ملکیت تھوڑی ہے،ایک حکومتی ادارہ ہے،
چیخیں، چلائیں،مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، علیم خان کے لہجے سے نہیں ڈرتی،پلوشہ خان
پلوشہ خان کا مزید کہنا تھا کہ کرپشن کے حوالہ سے رپورٹس ہیں، باتیں ہیں، ہمارا کام ہے سوال کرنا ،میں سوال نہ کروں، بولوں نہ، گائے بن کر بیٹھ جاؤں تو کیا کروں، آپ چیخیں، چلائیں،مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں علیم خان کے لہجے سے نہیں ڈرتی،میری ذات پر بات کرنی ہے تو فورم موجود ہے، ذات کی دھمکی دینا فضول بات ہے،وہ ایک پارٹی کے ہیڈ ہیں، مجھے پتہ ہوتا کہ انکو کیا مسئلہ ہے تو شاید ان کی مدد کر دیتے، یہ آپ ان سے پوچھیں کیا ایشو ہے.
ذات کی بات کر کے عورت کو دبا لیں گے ایسا سوچنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی،پلوشہ خان
پلوشہ خا ن کا مزید کہنا تھا کہ میں حیران ہوں کہ آج ایسا ہوا اور بھی وزیر ہیں جو سخت سوالات کا جواب بھی دیتے ہیں، آپ کابینہ کے ممبر ہیں، حکومت کے ممبر ہیں،میں جب حکومت میں تھی تو آپ مجھ سے بھی انٹرویو میں سخت سوالات کرتے تھے لیکن میں نے کبھی نہیں کہا کہ جرات کیسے ہوئی، سوال کرنا ہمارا حق ،جواب دینا ان کاکام، اس میں برائی کیاہے،میں نے انکی سوسائٹی کا جو نقصان ہوا اس پر تو سوال نہیں کیا،مجھے علم نہیں تھا کہ ایسا ہو گا ورنہ میں آج کی میٹنگ میں نہ آتی، میں کسی سے نہیں ڈرتی سوائے اللہ کے ذات کے، چیخنا چلانا،یہ ڈرانا ہی ہوتا ہے، ذات کی بات کر کے عورت کو دبا لیں گے ایسا سوچنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی،انہوں نے کہا کہ مجھ سے سوال کریں گی تو چار انگلیاں آپ کی طرف ہیں میں نے کہا میں کوئی وزیر ہوں یہ چار انگلیاں بھی وزیر کی طرف جاتی ہیں، میں کسی ادارے کو ہیڈ نہیں کرتی نہ میں وزیر ہوں تو میں کس بات کا جواب دوں،صرف اس بات کا کہ میں نے سوال سینیٹ میں ڈال دیا،اب وہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ کیا چیز ان کو ناگوار گزری، میں ہرروز تو نہیں لیکن کبھی کبھار سوال ڈالتی ہوں، محسن نقوی سے کئی بار سوال کر چکی ہوں انہوں نے تو کبھی نہیں کیا کہ جرات کیوں کی،کبھی کسی وزیر نے ایسی بات نہیں کی ،سب جواب دیتے ہیں لیکن یہ بدتمیزی…اگلے کو بھی فورس کریں کہ وہ جواب دے،میرا ان سے کبھی بھی کوئی اختلاف نہیں رہا.ان کا ذاتی مسئلہ،کوئی دباؤ ہو سکتا ہے،
علیم خان پارٹی ہیڈ،کیا انکی پارٹی میں لوگ سوال نہیں کر سکتے؟پلوشہ خان
پلوشہ خان کا مزید کہنا تھاکہ میں کمیٹی اجلاس کی تمام ریکارڈنگ بھیج دوں گی،سب سن لیجیے گا،ہماری کمیٹی کی تمام میٹنگز کی ریکارڈنگ ہوتی ہے، پھر دیکھیے گا کہ کس نے بدتمیزی کی، چار انگلیاں میری طرف اٹھتی ہیں یا نہیں،میری کئی وزیروں کے ساتھ بات ہوئی کسی بھی وزیر کا رویہ ایسا نہیں رہا،یہ تو پارٹی کے ہیڈ بھی ہیں، کیا ان کی پارٹی میں لوگ سوال نہیں کر سکتے، اچھی پارٹی ہے، میں خود حیران ہوں بحرحال میری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں،انہوں نے اپنے طور پر بدتمیزی کی یہ بدتمیزی اگر سمجھتے ہیں کہ مجھے دبا لے گی یا میں ڈر جاؤں گی تو سب کو پتہ ہے میں ڈرتی ورتی نہیں ہوں.








