پیناڈول، رائزک اور جگر کے امراض: سچ کیا ہے؟

2 دن قبل

پیناڈول، رائزک اور جگر کے امراض: سچ کیا ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
حال ہی میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک پوڈکاسٹ ویڈیو نے پیناڈول (پیراسیٹامول) اور رائزک (اومیپرازول) جیسی عام ادویات کے استعمال اور جگر کے امراض سے ان کے تعلق پر کافی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس ویڈیو میں کچھ حیران کن دعوے کیے گئے جو ایک طرف تو عوامی صحت کے لیے تشویش کا باعث بنے تو دوسری طرف کئی غلط فہمیوں کو بھی جنم دیا۔ ان دعوؤں کا حقیقت کی کسوٹی پر جائزہ لینا ضروری ہے۔

ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانیوں نے پچھلے سال رائزک نامی دوا پر تقریباً 8 ارب روپے خرچ کیے اور یہ دوا معدے اور جگر پر "تیزاب ڈالنے” جیسا اثر رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رائزک دراصل اومیپرازول ہے جو کہ ایک پروٹون پمپ انہیبیٹر (Proton Pump Inhibitor) ہے اور اس کا کام معدے میں تیزاب کی پیداوار کو کم کرنا ہے۔ یہ سینے کی جلن، بدہضمی اور السر کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ یہ دوا معدے یا جگر پر تیزاب ڈالتی ہے، سائنسی طور پر درست نہیں، کیونکہ یہ دوا تیزاب کی پیداوار کو روکتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں رائزک کا بے جا اور غیر ضروری استعمال عام ہے، جہاں لوگ بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے اسے درد کش ادویات کے ساتھ یا معمولی تیزابیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس دوا کا طویل استعمال وٹامن B12 کی کمی، گردوں کے مسائل اور جگر کے افعال میں بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے، تاہم اس کا براہ راست تعلق جگر کے کینسر سے ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔ 8 ارب روپے کے خرچ کا دعویٰ بھی غیر مصدقہ ہے کیونکہ اس کی کوئی سرکاری رپورٹ دستیاب نہیں۔

پوڈکاسٹ میں پیناڈول کے بارے میں کہا گیا کہ یہ دوا آج کل "ٹافیوں” کی طرح استعمال ہو رہی ہے اور اس کا زیادہ استعمال فیٹی لیور اور جگر کی دیگر پیچیدہ بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ یہ دوا دنیا میں بند ہو چکی ہے اور پاکستان میں بھی سات سال پہلے بین ہو چکی ہے۔ یہ دعوے مکمل طور پر غلط ہیں۔ پیناڈول (پیراسیٹامول) درد اور بخار کے علاج کے لیے دنیا بھر میں استعمال ہونے والی ایک انتہائی عام اور مؤثر دوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اسے بنیادی دواؤں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ دوا آج بھی دستیاب ہے۔ البتہ، یہ بات سچ ہے کہ پیراسیٹامول کا زیادہ استعمال، خاص طور پر اگر روزانہ 4 گرام سے زیادہ مقدار لی جائے یا اسے شراب کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ جگر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے مریض جو پہلے سے ہی ہیپاٹائٹس یا جگر کی کسی بیماری میں مبتلا ہوں، ان کے لیے پیراسیٹامول کا بے احتیاط استعمال مزید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دوا جگر کا کینسر پیدا کرتی ہے۔ جگر کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہیپاٹائٹس B اور C کے وائرل انفیکشنز ہیں۔

ویڈیو میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں جگر کے کینسر کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اگلے 15 سالوں میں 30 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جن لوگوں کے PCR ٹیسٹ "نیگیٹو” آتے ہیں، وہ بھی کینسر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں جگر کے امراض، خاص طور پر ہیپاٹائٹس B اور C ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، اور ان کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو جگر کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن 30 لاکھ افراد کو کینسر ہونے کا دعویٰ مبالغہ آمیز ہے اور اس کی کوئی سائنسی رپورٹ یا ثبوت موجود نہیں۔ جگر کے کینسر کی اصل وجوہات میں غیر محفوظ انجیکشن، خون کی غیر معیاری منتقلی اور ناقص صفائی شامل ہیں۔ جہاں تک PCR ٹیسٹ کا تعلق ہے، یہ وائرس کی مقدار چیک کرتا ہے۔ اگر یہ نیگیٹو آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ فی الحال وائرس موجود نہیں، لیکن یہ کینسر یا دیگر بیماریوں کی موجودگی کو رد نہیں کرتا۔ ویڈیو میں کینسر کے کچھ مخصوص ٹیسٹس (جیسے ایلفا فیٹوپروٹین، CA125، CA15-3، CA19-9، اور CEA) کا ذکر کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ان سے اکثر میں کینسر کی ابتدائی علامات نکل آئیں گی۔ یہ ٹیسٹ مخصوص کینسرز کی نشاندہی میں مددگار ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی تشریح صرف ماہر ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ یہ تمام ٹیسٹ ہر مریض پر لاگو نہیں ہوتے اور ہر مثبت نتیجہ کینسر کی حتمی تشخیص نہیں ہوتا۔ مزید براں CA125، CA15-3، اور CA19-9 جیسے ٹیسٹ بنیادی طور پر جگر کے کینسر کے لیے نہیں، بلکہ بالترتیب رحم/بیضہ دانی، چھاتی اور لبلبہ/گال بلیڈر کے کینسر سے متعلق ہیں۔

یہ پوڈکاسٹ اگرچہ کچھ غلط معلومات پر مبنی ہے، لیکن اس میں دواؤں کے غلط اور غیر ضروری استعمال کے بارے میں جو تشویش ظاہر کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے۔ پاکستان میں عام لوگ اکثر معمولی بخار یا درد پر خود ہی دوا لے لیتے ہیں یا کسی کی رائے پر عمل کرتے ہیں۔ یہ رویہ خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب بات جگر جیسے نازک عضو کی ہو۔ یہ معاملہ صرف ان دو دواؤں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے مجموعی صحت کے نظام اور عوامی شعور کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اوور دی کاؤنٹر دواؤں کی فروخت پر سخت قوانین نافذ کرے، فارمیسیوں کی نگرانی کرے اور عوام کو دواؤں کے درست استعمال کے بارے میں آگاہی دے۔ ساتھ ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والے طبی دعوؤں کی سچائی جانچنا اور ان پر اندھا یقین کرنے سے گریز کرنا بھی ضروری ہے۔

اس طرح کی ویڈیوز میں کئی بار خوف پھیلانے کا عنصر شامل ہوتا ہے اور وہ حقیقت سے دور ہو سکتی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم بطور قوم اپنی صحت کے معاملات کو سنجیدگی سے لیں، اپنی زندگیوں کو غیر ضروری دواؤں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں اور اگر کسی دوا کا استعمال کریں تو مستند ڈاکٹر کے مشورے سے کریں۔ جگر ایک خاموش مگر نہایت اہم عضو ہے، جب یہ بولتا ہے تو اکثر دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لیے ہیپاٹائٹس B کی ویکسین لگوائیں، محفوظ انجیکشن استعمال کریں اور باقاعدہ چیک اپ کروائیں۔ سوشل میڈیا کے دعوؤں پر بھروسہ کرنے سے پہلے ڈاکٹر یا معتبر ذرائع سے تصدیق کرنا ہمیشہ بہتر ہے۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں

Latest from بلاگ