یہ زمین ہمیشہ سے پانی کی مہربانیوں سے زندہ رہی ہے۔ دریاؤں کی روانی نے دھرتی کو زرخیز کیا، کھیتوں کو سنہری خوشبو بخشی اور بستیوں میں زندگی کے چراغ جلائے۔ مگر کبھی کبھی یہی پانی جلال میں آ کر سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بادلوں نے زمین کو پھر آزمایا۔ بوندوں نے پہلی بار دھوکہ نہیں دیا، لیکن جب یہ بوندیں ریلوں میں ڈھلیں تو بستیاں ان کے حصار میں آ گئیں، اور خواب پانی کی شاخوں پر جھولتے رہ گئے۔

یہ منظر نیا نہیں۔ ہم ہر سال یہی تماشہ دیکھتے ہیں۔ سیلاب آتا ہے، زندگیاں بہا لے جاتا ہے، اور پیچھے چھوٹی چھوٹی امیدوں کی مٹی رہ جاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم کب بدلیں گے؟ پانی تو اپنا راستہ لے گا، یہ قدرت کا قانون ہے۔ لیکن انسان کے حصے میں تدبیر ہے، منصوبہ بندی ہے۔ جن قوموں نے پانی کو رحمت بنایا، انہوں نے مضبوط بند باندھے، ذخائر بنائے، اور آنے والے دنوں کے لیے تیاری کی۔ ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اپنے خواب سیاست کے دھارے میں بہا دیے۔ ڈیم کے فیصلے میزوں پر سوتے رہے اور دریاؤں نے بستیاں جگا دیں۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ بھارت سے آنے والا پانی تباہی کا سبب ہے۔ یہ جزوی سچ ہے، لیکن کیا یہ پوری کہانی ہے؟ نہیں۔ اگر ہمارے پاس بڑے ذخائر ہوتے، چھوٹے ڈیمز کی قطاریں ہوتیں، اگر ہم نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہوتا، تو یہ پانی ہماری زمین کی پیاس بجھاتا، ہمارے مستقبل کو روشن کرتا۔ مگر ہم نے وقت کو کھو دیا، اور اب پانی ہماری کوتاہیوں کا ماتم کر رہا ہے۔

یہ وقت الزام تراشی کا نہیں، فیصلہ سازی کا ہے۔ ہمیں پانی سے دشمنی ختم کرنی ہوگی۔ یہ وہ دشمن نہیں جس سے جنگ جیتی جا سکے، یہ وہ دوست ہے جس سے تعلق نبھانا سیکھنا ہوگا۔ اگر ہم نے آج بھی دیر کی، تو آنے والے برسوں میں یہ سوال اور کڑا ہوگا:
“ہم نے پانی کو دوست کیوں نہ بنایا؟”

پانی کی یہ یلغار ہمارے لیے سبق ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ قدرت سے لڑا نہیں جا سکتا، اس کے ساتھ جیا جا سکتا ہے۔ اگر آج ہم نے چھوٹے بڑے ذخائر، واٹر مینجمنٹ، اور قومی اتفاقِ رائے پر کام نہ کیا تو خواب یونہی پانی کی شاخوں پر لٹکتے رہیں گے۔

Shares: