اپنے پاؤں پر ہی کھڑا ہونے کا نام ترقی ہے، تجزیہ، شہزاد قریشی

qureshi

عوام کی اکثریت کو مہنگائی، غربت، بیروزگاری کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا سامنا رہا اور موجود ہے۔ ملک میں معاشی عدم استحکام، سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں تھا اور موجود ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی خاطر ہمیشہ فرنٹ لائن میں کردار ادا کیا وہ ضیا الحق کا دور حکومت ہو یا پرویز مشرف کا دور حکومت جس کے اثرات آج تک پاکستان بطور ریاست اور قوم بھگت رہے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاک فوج، قومی سلامتی کے اداروں، سول سوسائٹی، پولیس نے بے مثال جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانیاں دیں۔ جس کا عالمی دنیا اور امریکہ اعتراف کرتا ہے۔ آج ملک میں معاشی عدم استحکام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار ادا کیا ضرب عضب اور رد الفساد کے ذریعے ملک سے دہشت گردوں اور انتہاپسندی کا خاتمہ کیا آج ایک بار پھر ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ معاشی عدم استحکام سیاسی عدم استحکام محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور پھر میاں محمد نوازشریف کادور حکومت کا خاتمہ ہوا ہے ملک میں عدم استحکام ہی رہا ہے۔ نوازشریف کو پانامہ کیس میں سزا کے بجائے اقامہ پر سزا دی گئی وہ اپنے بیٹوں اور بیٹی کو ساتھ لے کر جے آئی ٹی سے لے کر عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔

نوازشریف کے بعد عمران خان کے دور حکومت کا آغاز ہوا انہوں نے بھی اس ملک کو معاشی مستحکم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جس کا خمیازہ تادم تحریر پاکستان بطور ریاست اور عوام بھگت رہی ہے۔ ملکی سیاسی جماعتوں میں پرلطف زندگی گزارنے والے سیاستدانوں نے ملکی وسائل پر توجہ دینے کی عالمی مالیاتی اداروں اور آئی ایم ایف کا سہارا لیا اور وقتی راحت پر توجہ دی جبکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے قرض در قرض لے کر ترقی کرنا ممکن ہی ہیں اپنے پاؤں پر ہی کھڑا ہونے کا نام ترقی ہے۔ آج سیاسی گلیاروں میں عجب بے معنی شور نے مشکلات میں گھرے عوام کے کان مائوف کر دیئے ہیں۔ کہیں آئینی بحران کی صدائیں کہیں قانون کی حکمرانی کی صدائیں۔ کہیں الیکشن کی صدائیں ۔ سیاست ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہوس اقتدار اور ہوس زر نے پورے ملک اور اس کی عوام کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان حالات میں اور یہاں تک پاکستان کو پہنچانے میں کس کا اور کن کرداروں کا ہاتھ ہے فیصلہ عوام خود کریں۔

Comments are closed.