ادب کی دنیا میں ادبی فن پارے کو پرکھنے والا پارکھ کہلاتا یے، اور ادبی تخلیقات کو سنوارنے کا کام نقاد کے ذمہ ہوتا یے۔
یہ پارکھ، یہ مبصر اور یہ نقاد سب ادب کی دنیا میں بھلے لگتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں کسی کو بھی ایسے نقاد اور پارکھ کی حاجت نہیں ہوتی، جو تحقیق کے بغیر تنقید کرے یا کچھ بھی جانے بغیر آپ کے بارے میں رائے قائم کرے۔
اس دُنیا میں انواع و اقسام کے نفوس موجود ہیں۔
کسی کے والدین کیسے ہیں ؟
آپ اس بات سے ناواقف ہیں۔
کسی کے بہن بھائی کا رویہ کیسا ہے؟
آپ اس بات سے بے بہرہ ہیں۔
کسی کے خاندان والے کیسے ہیں؟
آپ کو اس بات کاذرا علم نہیں۔
جب تک یہ تمام باتیں آپ کو نہیں معلوم ، خدا کے لیے کسی کو غلط نہ کہیں۔
یہ بگڑا ہوا، منفی اور عجیب وغیرہ وغیرہ۔۔۔
کیا پتا ان کے حصّے میں ایسے والدین آئے ہوں، جنہیں اپنے بچوں سے زیادہ دنیا کے بچے عزیز ہوں؟
کیا پتا انہیں اپنے بچّوں کی کامرانی پر جشن منانا نہیں آتا ہو ؟
کیا پتا انہیں اپنے بچے سدا کے نالائق لگتے ہو ؟
اور کیا پتا کسی کے حصّے میں ایسے والدین آئے ہوں، جنہیں کچھ سوچنے سمجھنے کی فرصت ہی نہ ہو وہ اپنے اپنے دائروں میں گردش کر رہے ہو، اور زندگی کو سمجھنے کی بجائے بس کھانے، پینے اور سونے تک اپنی زندگی محدود کر رکھی ہو۔
زندگی میں موڑ کیا ہوتے ہیں ؟ اور فیصلے کس بلا کا نام ہے وہ ان تمام باتوں سے بے بہرہ ہو۔
اور ایسے ہی والدین کے بچے جب اپنے بل بوتے پر مسلسل تگ و دو کے بعد کچھ حاصل کرتے ہیں، تو دنیا والدین کے سر پر تاج سجا دیتی یے۔
ہر کسی کے والدین ساتھ کھڑے ہونے والے، اور ہمت بڑھانے والے نہیں ہوتے، یہ دنیا ہے اور یہاں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ تو لہذا لوگوں کو پرکھنا چھوڑ دیں، آپ کے پاس اچھے لوگ موجود ہیں تو یہ نہ سمجھیں سب کے پاس حوصلے بلند کرنے والے والدین موجود ہوں گے، یہ اپنے پاس کہیں لکھ کر رکھ لیجیے کہ اسی دنیا میں کچھ لوگوں کے پاس والدین محض حوصلے پست کرنے والے ہوتے ہیں، اور ایسے ہی بچے ہوتے ہیں، جن کی کامیابی دنیا میں امر ہوجاتی یے، ورنہ وہی دہرائی ہوتی یے۔ کچھ کو اچھے ماحول کے سبب کامیابی مل جاتی ہے اور کچھ لوگوں کا سفارش سے کام بن جاتا یے۔ مگر خدا سے بڑا منصف اور کون ہوسکتا ہے بھلا ؟
اس جہانِ تگ و دو میں کس نے کتنی اور کس حد تگ و دو کی ہے، یہ صرف اللّٰہ کے علم میں ہے۔
اور کیا کوئی اللّٰہ کے مقابل آسکتا ہے ؟