دوار حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
یوم پیدائش : 28 فروری 1902ء
اجنالا،برطانوی ہند
وفات:01 دسمبر 1950ء
لاہور
وجۂ وفات:دورۂ قلب
طرز وفات:طبعی موت
شہریت: پاکستانی
جماعت: مسلم لیگ
اولاد:سلمان تاثیر(سابق گورنر پنجاب)
مادر علمی:پیمبروک
زبان:اردو، انگریزی
ملازمت:جامعہ پنجاب، اسلامیہ کالج لاہور
اردو شاعر ،نقاد اور ماہر تعلیم۔ قصبہ اجنالہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1904ء میں پہلے والد پھر والدہ نے وبائے طاعون میں انتقال کیا۔ میاں نظام الدین رئیس لاہور نے جو ان کے خالو تھے، پرورش کی۔ فورمین کرسچن کالج لاہور سے 1926ء میں ایم اے کی ڈگری لی۔ اسی سال اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مستعفی ہو کر محکمہ اطلاعات سے وابستہ ہوگئے۔ 1928ء میں دوبارہ اسلامیہ کالج میں آگئے۔ 1934ء میں انگلستان چلے گئے اور کیمبرج سے پی۔ ایچ۔ ڈی کیا۔
1936ء میں ایم۔ اے او کالج امرتسر میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم تک مختلف عہدوں پر کام کیا۔ 1947ء میں سری نگر گئے اور پھر پاکستان آکر آزاد کشمیر کے محکمہ نشر و اشاعت کے انچارچ ہوگئے۔ 1948ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے اور زندگی کے آخری ایام تک اسی کالج سے وابستہ رہے۔
ڈاکٹر تاثیر کی ادبی زندگی کا آغاز لڑکپن ہی میں ہوگیا تھا۔ کالج میں ان کی صلاحیتوں نے جلا پائی اور 1924ء تک ادبی دنیا میں خاصے معروف ہوگئے۔ انھی دنوں ’’ نیرنگ خیال‘‘ لاہور کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ دیگر ممتاز رسائل میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے تھے۔ انھوں نے روایت سے بغاوت کی اور مروجہ اسلوب سے ہٹ کر آزاد نظم کو ذریعۂ اظہار بنایا ۔
وہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے سابقہ مقتول گورنر سلمان تاثیر کے والد تھے۔ غازی علم دین شہید کے جسد مبارک کے لیے صندوق و بانس کا اہتمام ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کیا تھا۔
تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔
کنول (ناول)
آتش کدہ (شعری مجموعہ)
اشعار
۔۔۔۔۔
ہمیں بھی دیکھ کہ ہم آرزو کے صحرا میں
کھلے ہوئے ہیں کسی زخم آرزو کی طرح
داور حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
میری وفائیں یاد کرو گے
روؤگے فریاد کرو گے
یہ ڈر ہے قافلے والو کہیں نہ گم کر دے
مرا ہی اپنا اٹھایا ہوا غبار مجھے
جس طرح ہم نے راتیں کاٹی ہیں
اس طرح ہم نے دن گزارے ہیں
ربط ہے حسن و عشق میں باہم
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
حضور یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
یہ دلیل خوش دلی ہے مرے واسطے نہیں ہے
وہ دہن کہ ہے شگفتہ وہ جبیں کہ ہے کشادہ