پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی سحر کامران نے پارلیمنٹ کے اندر خواتین کو ہراساں کیے جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ خواتین کو نہ صرف عام زندگی میں بلکہ پارلیمنٹ کے اندر اور قائمہ کمیٹیوں میں بھی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ انکشافات ایک نجی ٹی وی پروگرام میں سامنے آئے جس میں مسلم لیگ ن کی نوشین افتخار، پیپلز پارٹی کی سحر کامران، اور تحریک انصاف کی سینیٹر ڈاکٹر زرقا تیمور نے خواتین کے لباس پر اعتراض اور ہراساں کرنے کے معاملے پر گفتگو کی۔سحر کامران نے اس بات پر زور دیا کہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے لباس پر تنقید کرے۔ انہوں نے بتایا کہ 2018 میں سوک ایجوکیشن کا بل منظور ہوا تھا، لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ہر سرگرمی میں حصہ لینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کو حاصل ہے، لیکن موجودہ معاشرے میں خواتین کو ہراسانی کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رہنما مسلم لیگ ن نوشین افتخار نے بھی اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لباس سے متعلق پی ٹی آئی کے رکن اقبال آفریدی کے بیان پر انہیں افسوس ہوا۔ نوشین افتخار نے کہا کہ اگر اقبال آفریدی کو لباس پر اعتراض تھا تو وہ براہ راست ان سے شکایت کرتے، لیکن انہیں میڈیا میں اس بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہراسانی کے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ نوشین افتخار نے یہ بھی کہا کہ خواتین کسی بھی پلیٹ فارم پر محفوظ نہیں ہیں اور ہر جگہ انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تحریک انصاف کی سینیٹر زرقا تیمور نے کہا کہ معاشرہ خواتین اور مردوں دونوں کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں 17 فیصد کے بجائے 50 فیصد خواتین ہونی چاہییں تاکہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ زرقا تیمور نے کہا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق مرد ارکان پارلیمنٹ کو تربیت دینے کی ضرورت ہے اور یہ کہ تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین کو اپنے حقوق سے متعلق نئی قانون سازی پر غور کرنا چاہیے۔اس گفتگو کے دوران تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی خواتین ارکان نے مل کر اس بات پر اتفاق کیا کہ خواتین کے لباس پر اعتراض اور ہراسانی جیسے مسائل کے حل کے لیے مزید قانون سازی کی جانی چاہیے تاکہ خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔

Shares: