آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو اور پشتو زبان کی ممتاز ادیبہ ، شاعرہ ، ریڈیو براڈ کاسٹر اور پشتو زبان کی اولین خاتون افسانہ نویس و ناول نگار سیدہ زیتون بانو 18 جون 1938 میں پشاور کے ایک نواحی گاؤں "سفید ڈھیری ” میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد سید سلطان محمود ایک روشن خیال اور ترقی پسند ادیب تھے جبکہ دادا پیر سید عبدالقدوس ٹنڈر ایک مشہور شاعر گزرے ہیں زیتون بانو نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور پشتو میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ ریڈیو پاکستان پشاور اسٹیشن سے منسلک ہو گئیں جس میں وہ پروڈیوسر کے عہدے پر بھی فائز رہیں جبکہ پاکستان ٹیلی ویژن سے بھی وابستہ رہیں۔

سیدہ زیتون بانو کو بچپن سے ہی شعر وادب سے دلچسپی تھی ۔ انہوں نے دوران طالبعلمی ہی افسانہ نگاری شروع کر دی اور نویں جماعت میں 1958 میں پشتو میں ان کے افسانوں کی پہلی کتاب”ہندارہ” یعنی ” آئینہ” شائع ہو گئی۔ زیتون بانو نے اردو اور ہندکو کے مشہور ادیب تاج سعید سے شادی کی اور مستقل طور پر پشاور شہر منتقل ہو گئیں ۔ زیتون بانو کی 24 کے لگ بھگ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں پشتو اور اردو کی کتابیں شامل ہیں پشتو میں ان کا صرف ایک شعری مجموعہ” منجیلا” شائع ہوا ہے ۔

ان کی چند مشہور کتابوں کے نام، وقت کی دہلیز پر ، خوشحال شناسی، برگ آرزو ” مات بنگڑی” ٹوٹی چوڑیاں ، بنگری، خوبونا، جواندی غمونا، شاگو مزل، و دیگر شامل ہیں ۔ 14 اگست 1996 میں ان کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ برگ آرزو ان کا واحد ناول ہے جسے ” ڈھول” کے عنوان سے ڈرامہ سیریل کے طور پر نشر کیا گیا ۔ 14 ستمبر 2021 میں 83 برس کی عمر میں پشاور میں ان کا انتقال ہوا۔

Shares: