اگر مجھے پی سی بی کا اختیار مل جائے سب ٹھیک کر دوں گا،جاوید میاںداد

کرکٹ کے فروغ کیلئے کام کرنا ہوگا
0
124
pcb

کراچی: سابق قومی کرکٹر اور ٹیسٹ کپتان جاوید میانداد نے کہا ہے کہ پاکستان میں جس کی حکومت ہوتی ہے، وہ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ میں اپنے پسندیدہ افراد لے کر آتا ہے۔

باغی ٹی وی : کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق کرکٹر جاوید میاںداد نے کہا کہ پوری دنیا میں کرکٹ سے ساتھ ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہوتا ہے،کرکٹ کے فروغ کیلئے کام کرنا ہوگا جو بھی وزیراعظم بنے،اسے ملک اور کرکٹ کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہیے، پاکستان میں جس کی حکومت ہوتی ہے، وہ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ میں اپنے پسندیدہ افراد لے کر آتا ہے، اگر مجھے پی سی بی کا اختیار مل جائے تو سب ٹھیک کردوں گا، میں نے ماضی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی،ان کو کرکٹر بنادیا جن کو کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔

واضح رہے کہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) مینجمنٹ کمیٹی تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے نگراں وزیراعظم نے محسن نقوی کی تقرری کی منظوری دی۔وزارت بین الصوبائی رابطہ محسن نقوی کی تقرری کا نوٹیفکیشن جلد جاری کرے گی۔نگراں وزیراعظم نے محسن نقوی کو پی سی بی کا ممبر بورڈ آف گورنر بھی تعنیات کردیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے غیرملکی لیگز کےلیے جاری عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) کے معاملے پر قومی کھلاڑی شدید ناراض ہیں۔ بنگلادیش پریمیئر لیگ (بی پی ایل) کےلیے این او سی جاری نہ ہونے پر شکووں کا انبار لگادیا۔ پی سی بی کی لیگز کےلیے پالیسی پر قومی کھلاڑیوں کو شدید تحفظات پیدا ہوگئے ہیں، کھلاڑیوں نے ٹیم مینجمنٹ اور آپس میں این او سی کے معاملے پر متعدد بار بات چیت کی۔

ٹیم مینجمنٹ سے شکوہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں نے کہا کہ ہر کھلاڑی کو این او سی جاری کرنے کےلیے مختلف قانون کے ساتھ دیکھا جارہا ہے، چند کھلاڑی ایک سال میں تیسری لیگ کھیلنے والے ہیں، دیگر کھلاڑیوں کو بھی این او سی دینا چاہیے۔کھلاڑیوں نے کہا ہے کہ نیشنل ڈیوٹی نہیں تو پی سی بی کو این او سی جاری کرنا چاہیے، دو این او سی کا کیا فائدہ جب مکمل لیگ ہی نہ کھیلنے دیا جائے؟ نیشنل ڈیوٹی نہ ہونے کے باوجود این او سی میں توسیع نہ دینے پر پی سی بی معاوضہ بھی اُس کا ازالہ بھی نہیں کرتا، کھلاڑیوں نے ٹیم مینجمنٹ سے سوال کیا کہ ورک لوڈ کس فارمولے کے تحت لگایا جاتا ہے؟ کوئی بھی طبی یا بائیومکینیکل ٹیسٹ کے بغیر ورک لوڈ کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ ناانصافی کی صورت میں کھلاڑی سینٹرل کنٹریکٹ سے دستبردار ہونے کا بھی سوچ سکتے ہیں-

Leave a reply