امن کے سودے یا ریاست پر وار؟ ذمہ دار کون؟
"تحریک انصاف کے دور میں کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات اور سہولت کاری نے پاکستان کی سلامتی کو نئے سوالات میں الجھا دیا ہے، یہ امن کی کوشش تھی یا دہشت گردی کو از سر نو طاقت دینے کا عمل؟”
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے موقف کی مسلسل تائید کو دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنز کے لیے نقصان دہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ماضی میں پی ٹی آئی نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور تقریباً 40 ہزار ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی بحالی کی وکالت بھی کی جس کے ویڈیو شواہد موجود ہیں۔ اسی دوران جب دہشت گردی عروج پر تھی، خیبرپختونخوا حکومت نے ٹی ٹی پی سے مفاہمت کی تجویز دی جبکہ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی مستقل طور پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالتی رہی اور بعض دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر فعال کارروائیوں کو روکنے کی صف بندی کرتی رہی۔ دوسری طرف افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد دہشت گردی اور دراندازی میں افغان شہریوں کی شمولیت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔
یہ معاملہ صرف سیاسی یا جماعتی ترجیح کا نہیں بلکہ ریاستی سلامتی کے بنیادی ڈھانچے سے جڑا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت (2018-2022) میں جو مذاکراتی پالیسی اپنائی گئی، اس نے نہ صرف دہشت گردوں کو از سر نو منظم ہونے کا موقع فراہم کیا بلکہ سیکیورٹی فورسز کی برسوں کی قربانیوں سے حاصل ہونے والا امن بھی داؤ پر لگا دیا۔
2014 میں جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی، عمران خان کو ٹی ٹی پی نے اپنے "مذاکراتی نمائندے” کے طور پر نامزد کیا تھا۔ یہی رجحان آگے چل کر پالیسی کی شکل اختیار کرتا ہے۔ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ نومبر 2021 میں ایک ماہ کی جنگ بندی طے پائی اور اس دوران نہ صرف درجنوں قیدی رہا کیے گئے بلکہ رپورٹس کے مطابق خیبرپختونخوا کے سابق قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو آباد ہونے کی اجازت بھی دی گئی۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے تو باقاعدہ طور پر "مفاہمت کی تجویز” پیش کی۔ یہ وہ وقت تھا جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی اور سیکیورٹی ادارے اپنی جانیں قربان کر کے عوام کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ اقدام پی ٹی آئی کے نزدیک "امن کی کوشش” تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے اور اپنے نیٹ ورکس بحال کرنے کا سنہری موقع ملا۔ بعض رہنماؤں نے ٹی ٹی پی کو "ہمارے مسلمان بھائی” کہہ کر ان کی بحالی کے بیانیے کو مزید تقویت دی۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل اور گلوبل ٹیررزم انڈیکس کے اعداد و شمار ایک بھیانک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 2021 میں پاکستان میں 424 دہشت گرد حملے ہوئے، 214 شہری جاں بحق ہوئے۔ اگلے ہی سال یہ تعداد بڑھ کر 630 حملوں اور 229 ہلاکتوں تک جا پہنچی۔ صرف 2023 میں ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروہوں نے 400 سے زائد حملے کیے، جس سے دہشت گردی میں 79 فیصد اضافہ ہوا۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سرحد پار دراندازی اور حملوں میں افغان شہریوں کی شمولیت نمایاں ہو گئی۔ اندازاً 70 سے 80 فیصد حملہ آور افغان نژاد تھے، جنہیں پاکستان کی طرف سے ملنے والی رعایتوں اور افغان طالبان کے تحفظ نے مزید تقویت دی۔
دہشت گردوں کی بحالی اور دوبارہ آبادکاری نے نہ صرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام کو غیر محفوظ کیا بلکہ ملک میں سیاسی تقسیم کو بھی گہرا کر دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) جیسے گروہوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی نے CTD کی کارروائیوں کو متنازعہ بنایا۔ اس سے قومی اتفاق رائے ٹوٹا اور دہشت گردوں کے خلاف یکجہتی کا پیغام کمزور ہوا۔
دہشت گردی کا سب سے بڑا نقصان صرف انسانی جانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ معیشت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ ورلڈ بینک اور وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کو 2001 سے اب تک دہشت گردی کے سبب 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں سالانہ 5 سے 10 ارب ڈالر تک کے نقصانات رپورٹ ہوئے۔
2021 سے 2023 کے دوران دہشت گردی کی وجہ سے معاشی نقصان میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ افغانستان،پاکستان تجارت 30 فیصد کم ہوئی، چینی سرمایہ کاری کے منصوبے خاص طور پر CPEC کے پروجیکٹس تاخیر کا شکار ہوئے، جس سے 2 سے 3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ٹورزم اور سرمایہ کاری کے شعبے میں 20 سے 25 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
تحریک انصاف کی ٹی ٹی پی سے متعلق پالیسیوں کو امن کے نام پر اختیار کیا گیا، مگر یہ پالیسی ایک ریاستی غلطی ثابت ہوئی جس نے دہشت گردوں کو تقویت بخشی اور پاکستان کو سیکیورٹی، سماجی استحکام اور معیشت کے اعتبار سے کمزور کیا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ یہ پالیسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر تھی، لیکن جمہوری حکومت کے طور پر اس کی ذمہ داری براہِ راست پارٹی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ گواہی دیتے رہیں گے کہ یہ نرم رویہ دراصل دہشت گردی کی نئی لہر کا نقطہ آغاز بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریفرنسز
1.Dawn News, "Talks with TTP facilitated by Afghan Taliban” (2021).
2.Al Jazeera, "Pakistan begins talks with TTP” (Oct 2021).
3.United States Institute of Peace (USIP), "The TTP Resurgence after Afghan Taliban takeover” (2022).
4.Global Terrorism Index (GTI) Reports (2022, 2023).
5.South Asia Terrorism Portal (SATP), "Pakistan: Terrorism Data”.
6.Carnegie Endowment for International Peace, "The TTP’s Revival” (2023).
7.Ministry of Finance Pakistan, "Economic Survey of Pakistan” (2022-2023).
8.World Bank Reports on Pakistan Economy (2021-2023)