متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ کی منظوری کےخلاف یوم سیاہ پر صحافیوں نےملک بھر میں احتجاج کیا
پی ایف یو جے کی کال پر صحافتی تنظیموں نے ملک بھر میں یوم سیاہ منایا، نماز جمعہ کے بعد کراچی، لاہور اسلام آباد، کوئٹہ، سکھر، کندھکوٹ، جیکب آباد سمیت دیگر شہروں میں صحافتی تنظیموں کے احتجاجی مظاہرے ہوئے ،پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پر آر آئی یو جے، پریس کلب اور دیگر صحافتی تنظیموں کے نمائندگان پیکا ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے خلاف نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج میں شریک ہوئے ،نیشنل پریس کلب پر یوم سیاہ کے سلسلے میں سیاہ پرچم لہرا دیا گیا۔صدر پی ایف یو جے افضل بٹ، صدر نیشنل پریس کلب اظہر جتوئی، صدر آر آئی یو جے طارق ورک، آصف بشیر چوہدری شریک تھے،
اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے بھی صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیا، شرکاء نے پیکا ایکٹ کی منظوری کے خلاف شدید نعرے بازی کی، شرکاء نے ہاتھوں میں پیکا ایکٹ مخالف نعروں پر مشتمل پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے، ، مقررین نے اس موقع پر کہا کہ آج ملک بھر میں پیکا ایکٹ کے خلاف یوم سیاہ منایا جارہا ہے، کوئی فرد ایسا نہیں جو سوشل میڈیا کی ریگولیشن نہ چاہتا ہو، ہم چاہتے تھے ایسا قانون بنایا جائے جو کسی بھی وقت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال نہ ہو، ہمارا مطالبہ تھا کہ فیک نیوز کی تعریف سامنے لائی جائے تاکے قانون کا غلط استعمال نہ ہو،اس قانون میں متاثرہ فریق کے پورے پاکستان سے کوئی بھی آپ کے خلاف مقدمہ درج کرسکتا ہے اظہار رائے کو قابل دست اندازی جرم صرف دنیا کے تین ممالک میں بنایا گیا ہے
علی رضا علوی نے خطاب میں کہا کہ میں داد دیتا ہوں اس کو جس نے یہ قانون لکھا اور انکو بھی داد دیتے ہیں جنھوں نے اس پر دستخط کیے ۔آزادی صرف ان لوگوں کو ہے جنھوں نے چوری کرنی ہے ، ڈکیتی کرنی ہے بدمعاشی کرنی ہے ۔ حقوق کو غصب کرنا ہے ۔ ظلم کرنا ہے، ان سب کو کھلی چھٹی ہے، لیکن آزادی صحافیوں کو نہیں ہے،قلم والوں کو کیمرے والوں کاکیا جرم ہے، تین سال قید، بیس لاکھ جرمانہ صحافی تو شاید ساری زندگی بیس لاکھ نہ کما سکیں،
اینکر محمد مالک نے کہا کہ یہ کوئی صحافیوں کی جنگ نہیں ہے یہ عام آدمی کی جنگ ہے ۔اس لئےواضح ہونا چاہئے کہ کسی ایسے قانون کی ضرورت نہیں، قوانین موجود ہے، حکومت صرف عملدرآمد کروائے،اس قانون میں بدمعاشی دیکھیں اپیل آئینی بینچ میں جائے گی جو ان کے ہاتھ کی باندی ہے، ہم بددیانت سوچ کے خلاف ہیں،
نسیم زہرا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جن کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ اس زعم میں ہوتے ہیں کہ ہر حال میں ان کی مرضی چلے گی، پاکستان کی تاریخ شاہد ہے یہ نہیں ہو سکتا، قانون جو ابھی آیا ہے اس پر کسی سے بات نہیں کی گئی، نیت کا فقدان،بدنیتی پر مبنی ہے، سٹیک ہولڈر سے بات نہیں ہوئی،
آزادی صحافیوں کی ریڈ لائن ہے ،غریدہ فاروقی
سینئر صحافی و اینکر غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ آزادی صحافیوں کی ریڈ لائن ہے ،اس آزادی کو کوئی چھین نہیں سکتا، یہ آئینی قانونی آزادی ہے اور بنیادی انسانی حق ہے، اس کو کسی صورت پامال نہیں ہونے دیا جائے گا، صحافیوں کے پاس آواز اور آزادی ہے وہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے، صحافت ذمہ داری کے ساتھ ہونی چاہئے، اس کا اہم پہلو شخصی ذمہ داری ہے، قوانین پہلے بھی موجود ہیں ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا،جہاں ہو رہا وہاں پوری دنیا میں قانون کا مذاق بنا دیا گیا، اس قانون کو ہم نہیں مانتے، پورا یقین ہے کہ افضل بٹ سمیت دیگر قائدین کی قیادت میں ہم آگے بڑھیں گے، حکومت کا شکر ہے کہ صحافی برادری جو اختلافات کا شکار تھی حکومت نے اس کو متحد کر دیا.
آصف بشیر چوہدری جنرل سیکریٹری آر آئی یو جے کا کہنا تھا کہ آج ملک بھر میں پیکا ایکٹ کے خلاف یوم سیاہ منایا جارہا ہےکوئی فرد ایسا نہیں جو سوشل میڈیا کی ریگولیشن نہ چاہتا ہو،ہم چاہتے تھے ایسا قانون بنایا جائے جو کسی بھی وقت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال نہ ہو ۔
پیکا ایکٹ،یوم سیاہ،لاہور پریس کلب پر سیاہ پرچم، پیکا کالا قانون ہے،ارشد انصاری
پاکستان بھر میں پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف یوم سیاہ کے موقع پر لاہور پریس کلب کی عمارت پر سیاہ پرچم لہرا دیا ، متنازعہ کالے قانون پیکا کے خلاف لاہور پریس کلب میں بھی یوم سیاہ منایا گیا جس کی قیادت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل و صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے کی۔یوم سیاہ میں احتجاجی مظاہرے میں سی پی این ای، ایمنڈ، پی بی اے، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ، اے پی این ایس،پی یوجے، لاہورپریس کلب ،پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی ، میڈیا ورکرآرگنائزیشن، ایپنک، ایسوسی ایشن فوٹوجرنلسٹس آف لاہور، کیمرہ مین ایسوسی ایشن سمیت صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل و صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیکا کالا قانون ہے جو حکومتی اوچھا ہتھکنڈا ہے،جب صدر پاکستان نے اس قانون پر دستخط کئے ہوں گے اس دن بھٹو اور بی بی شہید کی روحیں تڑپ رہی ہوں گی، پیپلزپارٹی تو شہداءکی پارٹی ہے لیکن اب یہ صرف زرداری کا حصہ ہے، سب سیاسی جماعتیں کالے قانون کے حق میں تھیں اور پاس کردیا،پرویز مشرف و ضیا الحق آئے اور چلے گئے اب آپ کے گھر جانے کا وقت ٹھہر گیا،کالے قانون کو لاگو کریں گی تو حکومتیں چلی جائیں گی، احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا سی پی این ای، پی بی اے سمیت تمام پریس کلبز پیکا کے خلاف ہیں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا فیصلہ ہے جب تک کالا قانون ختم نہیں ہوگا نہ خود چین سے بیٹھیں گے نہ بیٹھنے دیں گے،اب اسمبلیوں میں بائیکاٹ ہوں گے بڑا مارچ اسلام آباد سے سینیٹ و قومی اسمبلی تک جائے گا۔یہ مت سمجھیں یوم سیاہ پر احتجاج ختم ہوگیا اپنا حق لیں گے پیکا ایکٹ کو ختم کرایں گے، ہم پیکا ایکٹ پر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے ، اب آئندہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ کا رخ کریںگے، پیکا ایکٹ کو دفن کردیں گے، ستائیس پریس کلب ہمیں فالو کرتے ہیں تو ملک بھر میں صحافی سراپا احتجاج ہیں۔سیکرٹری پریس کلب زاہد عابد نے کہا کہ ایک بار پھر لاہور پریس کلب میں احتجاج کرنے کی نوبت آ کئی ہے،حکومتی ناعاقبت کی وجہ سے پیکا ایکٹ منظور کیاگیا،حکومت اس بات پر اڑی ہوئی ہے لگتا ہے انہیں گھر جانے کی جلدی ہے، اچھی خاصی چیزوں کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے صحافی کسی کی پگڑی اچھالنے یا فیک نیوز کے حق میں نہیں لیکن کسی کی ،پسند کی خبریں بھی صحافی نہیں دے گا حکومت کو جو اقدام کرنے ہیں کر لے۔ پیپلزپارٹی مگر مچھ کے آنسو روتی ہے، پیپلزپارٹی کہتی اگر دستخط نہ کرتے تو بھی پیکا ایکٹ آئین کا حصہ بن جاتا، حکومت ہوش کے ناخن لے پیکا ایکٹ پر تحفظات کو دور کیاجائے کیونکہ اب کچے کے ڈاکو زیادہ محفوظ ہیں،لیکن صحافی کا جرم ناقابل ضمانت ہوگا ۔
نوازشریف اور ن لیگ کے حق میں بات کی،سزائیں بھی بھگتیں لیکن یہ قربانیاں فراموش کرچکے ہیں،ارشاد عارف
سی پی این ای کے صدر ارشاد عارف نے کہا کہ جنرل ضیاءالحق سے جنرل باجوہ تک جمہوریت سیاست کی ہم نے لڑائی لڑی ہے، ہم بھول جاتے ہیں یہ کسی کے نہیں مفاد کے ہیں،ہر سیاسی جماعت صحافیوں کو استعمال کرتی ہے دیکھیں کس کس نے ہمیں ڈسا ہے، سب سے زیادہ پابندیاں نوازشریف نے بھگتی ہیں انکا نام تک ٹی وی پر نہیں چل سکتا تھا، ہم نے مشکل دورمیں نوازشریف اور ن لیگ کے حق میں بات کی اور سزائیں بھی بھگتیں لیکن یہ قربانیاں فراموش کرچکے ہیں، پابندیاں میڈیا پر نہیں ہر شہری پر ہے جوبولتا اور حق کی بات کرتاہے، پیکا جیسی پابندیاں انسانی حقوق اوراسلامی حق سے محروم کرنا چاہتا ہے ہر رکاوٹ کو دور کرنے کےلئے ڈٹ جائیں گے۔
حکومت کے گماشتہ خود فیک نیوز پھیلاتے ہیں،کاظم خان
سی پی این ای کے سابق صدر کاظم خان نے کہا کہ جبر و ظلم کا قانون ہے اس کےخلاف اس وقت لڑتے رہیں گے جب تک اس بل کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا پاتے۔ خواجہ نصیر صدرپنجاب اسمبلی پریس گیلری نے کہا حکومت کے گماشتہ خود فیک نیوز پھیلاتے ہیں پھر لاکھوں لوگوں کی زبان بند کرنا چاہتے ہیں، اصل مسئلہ لاکھوں عوام ہے جو ٹوئٹر ایکس و سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں جسے بند کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جس میں اپوزیشن و حکومت شامل ہیں۔
سی پی این ای اور پی بی اے کے رہنما ایاز خان نے کہا کہ دوست کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور صدر زرداری نے اس پر اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا ،ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ صدر زرداری تو کئی بار کہ چکے ہیں کہ وعدوں کی کیا حیثیت ہے،وہ سیاسی فائدے حاصل کرتے ہیں۔
پنجاب بھر کے ڈسٹرکٹ پریس کلبز میں بھی پیکا کے کالے قانون کے خلاف یوم سیاہ منایا گیا ، بہاولنگر میں پریس کلب کے صدر محمد احمد چوہدری کی قیادت میں یوم سیاہ منایا گیا، اوکاڑہ میں صدر پریس کلب شہباز شاہین کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا، ننکانہ میں صدر پریس کلب آصف اقبال شیخ کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا، سرگودھا میں صدر آصف حنیف کی قیادت میں یوم سیاہ منایا گیا، خانیوال میں صدر پریس کلب حماد شاہ کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا، خوشاب میں صدر پریس کلب چوہدری عزیز الرحمان کی قیادت میں یوم سیاہ منایا گیا، شیخوپورہ میں صدر پریس کلب شہباز خان کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا، جھنگ میں صدر پریس کلب لیاقت علی انجم کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا، قصور میں صدر پریس کلب عطا محمد قصوری کی قیادت میں یوم سیاہ منایا گیا، وہاڑی میں پریس کلب کے صدر شاہد نیاز چوہدری کی زیر صدارت پیکا ایکٹ کے خلاف مذمتی اجلاس منعقد ہوا اور پیکا ایکٹ کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور بھرپور احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا،مظفر گڑھ میں صدر اے بی مجاہد کی قیادت میں ریلی نکالی گئی، چینیوٹ میں صدر پریس کلب عامر عمر چوہان نے مظاہرے کی قیادت کی اور پیکا ایکٹ کی واپسی تک سیاہ پٹیاں باندھ کر کوریج کرنے کا اعلان کیا۔ میانوالی میں صدر پریس کلب اختر مجاز کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا، سیالکوٹ میں صدر پریس کلب انور باجوہ نے مظاہرے کی قیادت کی ، لیہ میں صدر ارشد حفیظ کی قیادت میں یوم سیاہ منایا گیا،ڈیرہ غازی خان میں صدر پریس کلب مظہر لاشاری نے مظاہرین سے خطاب کیا۔
قبل ازیں پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کا اہم اجلاس ہوا جس میں متنازعہ قانون پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف تحریک اور رابطوں کا جائزہ لیا گیا،ممبران نے اجلاس میں احتجاجا بازوں پر کالی پٹیاں باندھ کر شرکت کی،اراکین نے دونوں ایوانوں سے احتجاجا واک آوٹ کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا،پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے "29 جنوری یوم سیاہ” ہر سال منانے کا اعلان کر دیا.
واضح رہے کہ پیکا ایکٹ نافذ ہو چکا ہے،پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کا مقصد جھوٹی خبروں اور بڑھتے ہوۓ پروپیگنڈے کو روکنا ہے،اس کے تحت سوشل میڈیا پر پھیلنے والی جھوٹی خبروں کو قانونی طور پر کنٹرول کیا جائے گا ، اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کرے گی اور غیر قانونی مواد کو ہٹائے گی،کمپلینٹ کونسل بھی بنائی گئی ہے تاکہ جھوٹے مواد کے خلاف شکایات کو حل کیا جا سکے،اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا ٹریبونل اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) بھی قائم کی گئی ہے، جو سائبر جرائم کی تحقیقات کرے گی اور مجرموں کے خلاف کارروائی کرے گی،یہ ترامیم شہریوں کو انصاف دلانے کا حق بھی فراہم کرتی ہیں، جس سے غلط فیصلوں کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے،دنیا بھر میں ریگولیٹری ادارے جیسے برطانیہ کا آف کام اور امریکہ کا ایف سی سی بھی اسی طرح کے اقدامات کرتے ہیں،پیکا ایکٹ کی ترامیم کا مقصد آزادی اظہار کو دبانا نہیں، بلکہ جھوٹے پروپیگنڈے کو روک کر معاشرے میں سچائی کو فروغ دینا ہے ، یہ اقدامات ملک کے امن اور استحکام کے لیے انتہائی اہم ہیں
پیکاایکٹ، کیا آزادی صحافت کو دبانے کی کوشش ہے؟تجزیہ:شہزاد قریشی
لاہور ہائیکورٹ،پیکا ایکٹ کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری
متنازعہ پیکا ایکٹ کی منظوری: پی ایف یو جے کا ملک بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان
پیکا ایکٹ کالا قانون ہے جوکسی صورت قبول نہیں ،بیرسٹر گوہر
پیکا ایکٹ،صحافیوں کی درخواست پر مولانا کا صدر مملکت سے رابطہ،صدر کی یقین دہانی
پیکا ایکٹ کی منظوری آزادی صحافت پر کاری ضرب ہے،تابش قیوم
پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف لاہورپریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ
صحافتی تنظیموں کوپیکا ایکٹ کی حمایت کرنی چاہئے،عطا تارڑ
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطاتارڑ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد صدر مملکت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کئے، پیکا ایکٹ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے،ملک میں سوشل میڈیا کے ذریعے فیک پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر جعلی خبریں، ہراسانی، بچوں سے بدسلوکی جیسی نامناسب خبریں پھیلائی جاتی ہیں،سوشل میڈیا پر ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، پیکا ایکٹ کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچائے جانے والے نقصانات کا تدارک کرنا ہے،سوشل میڈیا پر ملک میں افراتفری پھیلائی جاتی ہے، معیشت کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،سوشل میڈیا پر لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، ان پر جھوٹے فتوے لگا دیئے جاتے ہیں، توہین کا الزام لگا کر واجب القتل قرار دے دیا جاتا ہے،سوشل میڈیا پر خواتین کو بلیک میل کیا جاتا ہے جس سے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں، پارلیمنٹ نے ضروری سمجھتے ہوئے پیکا ایکٹ کی منظوری دی، پیکا ایکٹ سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور خطرات کے تدارک کے لئے لایا گیا، سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی، اس اتھارٹی میں پریس کلب یا صحافتی تنظیموں سے منسلک صحافیوں کو شامل کیا جائے گا، ٹربیونل میں بھی صحافیوں اور آئی ٹی پروفیشنل کو شامل کیا گیا ہے، اپیل کے حوالے سے بہت کلیریٹی ہے، ٹربیونل پر لازم ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر اسپیکنگ آرڈر پاس کرے، اس آرڈر کو رٹ پٹیشن کے ذریعے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا، رٹ پٹیشن اور ٹربیونل میں پرائیویٹ ممبرز کا حق موجود ہے اور صحافی بھی موجود ہیں، سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی موجود ہے،ابھی اس کے رولز بننے ہیں، اس میں مشاورت کی گنجائش موجود ہے، مشاورت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلیں گے،سوشل میڈیا کے خطرات کو روکنے کے لئے یہ ایک اچھا اقدام ہے، سوشل میڈیا کے خطرات سے پیدا ہونے والی بدامنی کو روکنے کے لئے یہ قانون کارآمد ثابت ہوگا،پیکا ایکٹ میں دنیا کے بہترین طریقوں کو اپنایا گیا ہے، صحافتی تنظیموں کو اس قانون کی حمایت کرنی چاہئے، رولز کی تیاری اور مشاورت پر ہمیں آگے بڑھنا چاہئے،