پاکستان میں حالیہ دنوں میں حکومت نے پیکا ترمیمی ایکٹ میں تبدیلیوں کی منظوری دی، جس کے بعد صحافیوں اور میڈیا تنظیموں نے اس پر شدید اعتراض کیا۔ اس قانون کی منظوری کے خلاف ملک بھر میں یوم سیاہ منایا گیا۔ اس احتجاج کا مقصد حکومت کے اس اقدام کو مسترد کرنا تھا، جو صحافتی آزادی اور اظہار رائے کے حق پر ضرب لگانے کے مترادف قرار دیا جا رہا تھا۔ پیکا ایکٹ کا مقصد سائبر کرائمز اور آن لائن جرائم کے خلاف اقدامات کیے جا سکیں۔ اس کے تحت سوشل میڈیا اور دیگر الیکٹرانک ذرائع پر کسی بھی قسم کے ہتک عزت، جھوٹے مواد یا ریاستی اداروں کی بدنامی کی صورت میں قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس قانون میں حالیہ ترمیمیں مزید سخت اور وسیع کی گئی ہیں، جس کے باعث صحافتی حلقوں میں اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی اپیل پر، مختلف صحافتی تنظیموں نے جمعہ کو یوم سیاہ کے طور منایا۔ اس دن کے دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جن میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ، سکھر، کندھکوٹ، جیکب آباد اور دیگر بڑے شہر شامل تھے۔ صحافتی تنظیموں کے نمائندگان اور میڈیا کارکنان اس احتجاج کا حصہ بنے اور اس قانون کی مخالفت کی۔اسلام آباد میں یوم سیاہ کے سلسلے میں نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس موقع پر صحافیوں نے سیاہ پرچم لہرائے اور پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس احتجاج میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے نمائندگان، آر آئی یو جے (اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس)، اور دیگر صحافتی تنظیموں کے افراد نے شرکت کی۔ نیشنل پریس کلب پر سیاہ پرچم لہرا کر اس احتجاج کا اظہار کیا گیا۔لاہور پریس کلب میں بھی یوم سیاہ کی تقریب منعقد کی گئی، جس میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ،صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے قیادت کی، اس احتجاج میں سی پی این ای، پی بی اے، ایمنڈ، اے پی این ایس، پی یوجے، لاہور پریس کلب، پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی اور دیگر صحافتی تنظیموں کے نمائندگان نے بھرپور شرکت کی۔ارشد انصاری نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ ایک کالا قانون ہے جو صحافتی آزادی کو چھیننے کے مترادف ہے۔ انہوں نے اس قانون کے پیچھے حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کو بے نقاب کیا اور اس پر زور دیا کہ حکومت اس قانون کو واپس لے۔ اس قانون کے ذریعے حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پیکا ترمیمی ایکٹ میں کی گئی تبدیلیوں پر صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون صحافیوں کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ ان کے مطابق، یہ قانون آزادی اظہار رائے اور صحافت کے حق کو متاثر کرتا ہے۔ صحافیوں کا ماننا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، جو کہ ایک جمہوری معاشرت کے لیے خطرناک ہے۔اس قانون کے ذریعے حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس سے نہ صرف میڈیا کی آزادی متاثر ہوگی بلکہ عوام کی آواز بھی خاموش کر دی جائے گی۔

یوم سیاہ کے اس احتجاجی مظاہرے کے بعد صحافی تنظیموں نے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اس متنازعہ ترمیمی ایکٹ کو واپس لے اور صحافت کی آزادی کو یقینی بنائے۔ صحافتی تنظیمیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ آزادی اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کسی بھی جمہوری معاشرت کا بنیادی ستون ہے، جسے ہر صورت میں محفوظ رکھا جانا چاہیے۔پیکا ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے خلاف صحافیوں کا احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں صحافتی آزادی کو لے کر ایک سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے۔ حکومت کے اس متنازعہ اقدام کے خلاف صحافتی تنظیموں کی جدوجہد اب ایک بڑے قومی مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہے، جس کا اثر نہ صرف صحافیوں پر پڑے گا بلکہ پورے ملک میں جمہوریت اور آزادی اظہار پر بھی اس کے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔صحافتی تنظیمیں اپنے احتجاج کو مزید بڑھا کر حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں تاکہ اس قانون کو واپس لیا جائے اور میڈیا کی آزادی کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ پاکستان کے عوام، خاص طور پر میڈیا کارکنان، اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے ایک ہو چکے ہیں اور اس جدوجہد میں ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں

jaan

Shares: