عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر.
قارئین آج جو تحریر جب آپ پڑھ رہے اب یہ چھپنے اور آپ کی نگاہوں میں آنے تک ہوسکتا ہے عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ ہو، یا گزر چکا ہو یا ایک آدھا دن باقی ہو۔ آج تمہید موقوف، تاریخی حوالہ جات سے ابتدا۔ 1857 جب ایک جانب برصغیر میں جنگ آزادی (بغاوت ہند) کو پینتالیسواں دن تھا۔ تو وہیں 5 جولائی 1857 کو جرمنی کے شہر کونیگشین میں ایک لڑکی نے جنم لیا جو آگے چل کر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جدوجہد سے معروف ہوئی۔
جرمن مارکسی تھیوریسٹ، کمیونسٹ کارکن، اور خواتین کے حقوق کی وکیل کلارا زیٹیکن کے نام سے معروف اس عورت نے جرمنی میں سماجی جمہوری خواتین کی تحریک کو فروغ دینے میں مدد کی۔ 1891 سے 1917 تک، اس نے SPD خواتین کے اخبار ڈائی گلیچیٹ (مساوات) میں ترمیم کی۔ 1907 میں وہ SPD میں نئے قائم کردہ "خواتین کے دفتر” کی رہنما بن گئیں۔ اس نے خواتین کے عالمی دن (IWD) میں بھی حصہ ڈالا. 19 مارچ 1911 کو باقاعدہ پہلا عالمی دن برائے خواتین منایا گیا۔ 1913 میں اس کو انعقاد 8 مارچ ہو جو اب بھی ہر سال نہ صرف منایا جاتا ہے بلکہ اب تو منوایا جاتا ہے۔ میڈیا تک رسائی، گیٹ کیپکنگ ( میڈیا ٹرم معنی شائع یا نشر کرنے سے پہلے اخلاقی و قانونی پہلو کا خیال رکھنا) نددار سوشل میڈیا کا پروپیگنڈا اور ریٹنگ کی دوڑ میں اندھا دھند دوڑتے میڈیا کی دانستہ بند آنکھوں نے عورتوں کے عالمی دن پر عورت مارچ کو اتنا اچھالا اور موضوع بنایا کہ اب یہ مذہبی ، لبرل اور درمیانے درجے کے ذہن رکھنے والوں میں ضد اور چڑ بن گیا۔ 2018 میں کراچی سے ایک این جی او ” ہم عورتیں” نے اس مارچ کا آغاز کیا تھا۔ تحریر کا رنگ اصل میں قاری کا مزاج تو پرکھتا ہی ہے لیکن لکھاری کو جس امتحان میں ڈالتا ہے وہ بھی عجیب ہے۔ بات کو سمجھانا بھی کے اور قارئین کے معیار، استعداد ذہنی و مذہبی رجحان بھی دیکھنے اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنا ایسا ہی ہے جیسے 100 گز کے 20 فٹ بلند رسے پر ہاتھ میں گیند پکڑ کر چلنا۔ سازش، عالمی ادارے، خواتین کی سمت کا غلط تعین اس طرف قلم چلے گا تو دلائل کی کمزور سڑک قلم کی افادیت کو ختم کر دے گی۔ بس تاریخ اور اعداد و شمار کی پکڈنڈی سے محفوظ راہ لیتے ہیں۔ قران کریم کی چوتھی سورۃ (النساء) میں وراثت کے جو اصول وضع ہیں۔ ان کے مطابق والد کی وراثت سے بیٹی کا حصہ دیکھیں ۔ترجمہ :اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لئے ترکے کا دو تہائی حصہ ہوگا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے( کنزالعرفان) یہی بیٹی بیوی بنتی ہے تو خاوند کی جائیداد میں اللہ حصہ مقرر کر رہے ہیں” اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حقدار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا حصہ آٹھواں ہو گا۔ بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے۔اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہو) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں ، مگر اس کا بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے۔ النساء -12
عورت کو بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں اللہ تعالیٰ نے جن حقوق سے نوازا ہے۔اس میں جائیداد کا حصہ کم کہنے والوں کو پہلے مطالعہ کرنا پھر بولنا چاہیے۔ مرد شادی کرتا ہے تو اپنی جائیداد میں بھی عورت کو حصہ دیتا ہے۔ بیٹی کا باپ اپنی جائیداد سے حصہ دیتا ہے اور بہن کا بھائی اگر بے اولاد ہو تو اس شخص کا ورثہ ایک لاکھ روپیہ ہے اور وارثوں میں ایک بیوی اور باپ کی طرف سے ایک بھائی اور ایک بہن ہیں تو بیوی کو چوتھائی حصہ یعنی 25000 روپے ملیں گے اور پھر بچے ہوئے 75000 روپوں کے تین حصے ہوں گے۔ بھائی کو دو حصے یعنی 50000 اور بہن کو ایک حصہ یعنی 25000 روپے ملیں گے ۔ سڑکوں پر نکلنے والے لبرل مکتبہ فکر کو دعوتِ مطالعہ و تحقیق ہے ۔ بنتا تو مردوں کا احتجاج ہے جو ہر روپ میں عورت کو جائیداد میں شامل کر رہے صبح سے رات تک کام، گھر کے اخراجات پر اضافی محنت، ادھار لینے بیوی کے میکے تک میں مصروفیات کا وقت نکالنا۔ باہر کے حالات خود پر جھیل کر گھر کا ماحول خوشگوار رکھنا پھر یہ بھی سننا کہ اپنے موزے خود دھو لو، اپنا کھانا خود گرم کرو، میرا جسم میری مرضی۔ پہلی بات کہ موزہ ہو یا کچھ بھی گھر میں کام عورت اس لیے کرتی کہ وہ اس گھر کی مالکہ ہوتی مرد جب باہر حالات کے تھپیڑوں کی ذد میں ہوتا تو ایک بند مکان میں فکر معاش سے آزاد محفوظ خاتون کھانا بنانا، گھر کی دیکھ بھال نہیں کرے گی تو پورا دن کیا کرے گی؟ اب چونکہ تحریر کے دشت میں سیاحی کی دہائی مکمل کیے بیٹھے لہذا بھانپ لیتے کہ اعتراض ہونے نہیں لگا ہو چکا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کیوں گھر سنبھالیں؟ تو جواب شکوہ ملازمت میں ہم نے بھی اوائل 2011 سے کرایہ پر رہ کر حصول علم کے لیے سفر بھی کیا روز، پڑھا، نوکری کی گھر کا کام کپڑے دھونا وغیرہ سالن بنانے تک کیا دو تین دوست تھے مل کر سب کام مکمل لہذا ملازمت پیشہ خواتین کی اکثریت نے پہلے ہی ملازم بعوض تنخواہ رکھے ہوتے یا پھر مشترکہ خاندان میں رہنے سے کام کی تقسیم دوسروں میں ہو جاتی ایک مرد اور عورت کے الگ رہنے پر مرد اکثر کام میں مدد کرتے اور اس میں کوئی عار نہیں۔ جو بیوی ماں، باپ بہن بھائی چھوڑ کر خاوند کو سب کچھ مانے ہوئے اس کی دل جوئی اور ہر ممکن سہولت خاوند کی ذمہ داری ہے۔
واپس عورت مارچ پر چلتے ہیں ان کے نعرے بہت دلفریب ہوتے لیکن عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق مانگنے والی خواتین سے احتراماً عرض ہے کہ ہم تو گاڑی میں بیٹھنے کی جگہ چھوڑ دیتے قطار میں خواتین کو آگے بھیج دیتے سر راہ کسی خاتون سے کوئی حادثہ یا غیرمعمولی صورتحال پر قریب موجود مرد سب سے پہلے اس کے سر اور جسم پے چادر ڈالتے۔ آپ نے مردوں کے برابر حقوق لے کر کیوں الٹا گئیر لگانا ہے۔ جب عورت کو دیکھ کر ہم مرد نگاہ جھکا لیتے بڑے سے بڑا تنازعہ ایک بیٹی بہن کے سامنے آنے پر حل ہوجاتا اور زندگی موت کا مسئلہ بنا کر کسی معاملے میں ایک دوسرے کی جان کے درپے فریقین بھی خواتین کی موجودگی میں انا پس پشت ڈال کر سر جھکا دیتے تو کیوں عورتوں کو عورت مارچ کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی کسی ماں کے سفید بال کسی بہن کے آنسو اور پھیلا دوپٹا دیکھ کر کسی مقتول کے ورثا جب خود روتے ہوئے قاتل کو معاف کرتے اور عورت کا تقدس وہ کروا دیتا جو قابل سے قابل وکیل نہ کرسکا تو کیوں عورت مارچ کرنا۔
فارسی کا ایک محاورہ ہے کہ( ترجمہ) بھرا ہو پیٹ فارسی بولتا ہے۔ بڑے شہروں کی بظاہر الٹرا ماڈرن اور مغرب کے فلسفے سے متاثر ایلیٹ کلاس کی ایک اقلیت کے پیچھے چلنے سے پہلے رکیں، سوچیں، پڑھیں، تحقیق کریں اکثر سانپ بھی خوشنما ہوتا اور نادان بچے چلتا انگارہ کھلونا سمجھ کر پکڑ لیتے۔
اختتام پر ضروری اعلان۔ ریپ کیسز، مردوں کی جانب سے عورتوں پر تشدد اور دیگر تمام منفی حوالے میرے بھی ذہن میں ہیں اس تحریر پر اعتراض کرنے سے پہلے جو کچھ لکھا ہے اس پر دوبارہ سوچیں اگر تو وہ درست ہے تو یہ مسائل ہم نے ہی حل کرنے ہر ایک خود کو درست کر لے معاشرہ خود ہی درست اور اگر میری بات غلط ہے تو اصلاح کے لیے مرتے دم تک تیار۔۔۔۔۔
خواتین کے تحفظ اور حقوق کی بلا رکاوٹ ادائیگی کے لیے ہر مثبت کام کی حوصلہ افزائی ضروری ہے لیکن عورت مارچ کے مخصوص نعروں اور پہلے سے طے مقاصد کے تحت عورت کو بے وقعت کرنا دیکھ کر خاموش رہنا جرم ہے