سٹیٹ لینڈ کی حفاظت کا جو بیڑا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اٹھایا اس کیلئے پنجاب کے ہر فرد نے دل کھول کر وزیراعلیٰ کے اس اقدام کی تعریف کی، وزیراعلیٰ پنجاب کی اینٹی انکروچمنٹ مہم کو ہر مکتبہ فکر اور سول سوسائٹی کی طرف سے بہت زیادہ سراہا گیا۔
لیکن پھر وہی ہوا چند دن بعد سرکاری ملازمین نے اس مشن کو صرف جعلی فوٹو سیشن تک محدود کردیا۔ سابق دور حکومت میں اینٹی کرپشن کو آنٹی کرپشن کہا جا تا تھا بالکل اسی طرح آج کل PERA یعنی اینٹی انکروچمنٹ فورس آنٹی انکروچمنٹ فورس بنتی جارہی ہے۔ انکروچمنٹ کے خاتمے کی بجائے تجاوزات کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ تجاوزات مافیہ سرعام کہتا ہے کہ ہم مفت میں نہیں بیٹھے ضلعی انتظامیہ، ایل ڈی اے، ایم سی ایل، ٹریفک پولیس اور PERA کو ”پروٹیکشن منی“ دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے چند پولیس افسران ملنے آئے تو کہنے لگے کہ جن اہلکاروں کو پولیس یونیفارم میں ریڑی والے بھی مفت پھل نہیں دیتے تھے جب سے انہوں نے PERA یونیفارم پہنی ہے ان سے قسم لے لو کہ انہوں نے اس دن سے گھر کا راشن، پھل اور سبزیاں تک خریدی ہوں سب کچھ مفت باری پر چل رہاہے۔

چند دن قبل گارڈن ٹاؤن لاہور میں عجیب منظر دیکھنے کو ملا، پھل خریدنے کیلئے گاڑی روکی تو دکاندار روتے ہوئے بولا جی سر میں نے اظہار ہمدردی پوچھا کہ خیریت رو کیوں رہے ہو کہنے لگا کہ ہر ہفتے PERA , ایل ڈی اے اور ایم سی ایل والے آجاتے ہیں، آج صبح PERA والے پیسے لیکر گئے ہیں تھوڑی دیر پہلے PERA کی ایک اور گاڑی والے آئے تو انکو کہا کہ صاحب جی صبح آپکی ٹیم سے ملاقات ہوگئی تھی تو وہ گالیاں دینے لگے کہ ہم تو ابھی آئے ہیں، ہماری خدمت کرو نہیں تو سارا کچھ گاڑی میں رکھو اور سٹیشن چلو۔۔۔۔۔۔نمبر پلیٹ نہ ہونے کی وجہ سے دکاندار بتانے سے بھی قاصر تھا کہ پہلے کونسی گاڑی ”بھتہ“ لے کر جا چکی۔پیرا PERA کی گاڑیوں پر نمبر پلیٹ نہ ہونے کی وجہ سے دوسری تحصیل سے بھتہ خوری کی جاسکتی ہے یا پھر ہوسکتا ہے کہ طریقہ واردات ہوکہ پہلے ایک گاڑی جائے پھر دوسری بھی چلی جائے۔

اس سے بڑھ کر لاقانونیت اور شرمناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ جس فورس کو قانون کی عملداری کیلئے بنایا گیا ہے وہ خود قانون شکنی کی ساری حدیں پار کر رہی ہے۔ بنا نمبر پلیٹ گاڑیوں میں ڈالہ گردی اور غندہ ازم کرتی پھر رہی ہے۔
ایک دوست نے لاہور کی اہم ترین تحصیل کے ایس ڈی ای او پیرا کا وائس نوٹ سنایا جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ آپ کی بار بار شکایات سے تنگ آکر میں نے انکروچمنٹ کی ٹیم بھیج کر آپ کو ابلائج کیا ورنہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ گلیوں میں تجاوزات دیکھیں، جوابی وائس نوٹ میں مذکورہ ایس ڈی ای او کو غیرت دلائی کہ بھائی تم نے ٹیم بھیج کر جو ابلائج کیا ہے بتا دو کہ کیا تمہاری ٹیم نے ایک پتھر بھی ہٹایا؟
ایس ڈی ای او ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ اس نے ابلائج کیا کیونکہ رہائشوں علاقوں میں کونسا کسی نے پیسے دینے ہیں یا اسے ”پروٹیکشن منی“ مل جائے گی جو وہ تجاوزات ہٹائے جبکہ بازار میں تو ہر چکر پر مال ہی مال اکٹھا کیا جاتا ہے۔
مجھے حیرانگی ہوئی کہ نئے افسران اس قدر ذہنی مریض اور بے حیا ہوچکے ہیں کہ جس کام کیلئے انہیں پوسٹنگ دی گئی اس لیگل کام کو کرنا احسان جتلانا اور ابلائجمنٹ سمجھتے ہیں جبکہ حرام اکٹھا کرنا استحقاق۔

حاکمیت اور بدمعاشی والی اسی غلیظ سوچ کے ساتھ سرکاری افسران اغوا برائے تاوان جیسی وارداتیں ڈال رہے ہیں۔
مجھے امید ہے یہ بچہ عنقریت رہائشی ایریاز والے معزز شہریوں کو کہے گا آپ سے بھتہ نہ لیکر آپ کو ابلائج کر رہا ہوں کیونکہ ہر کاروباری سے تو لیتے ہی ہیں ایسے میں رہائشیوں سے نہ لینا یقینی طور پر ابلائجمنٹ ہی ہے ، مذکورہ نوجوان افسر کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ تمہاری تحصیل میں سرکاری دفاتر تک کے دائیں بائیں بھی دس دس فٹ کی تجاوزات ہیں۔
صوبائی دارالحکومت کو رول ماڈل ہونا چاہئے لیکن لاہور کی خوبصورتی کو تجاوزات مافیا کی سرپرستی کرنے والے سرکاری افسران نے بدصورتی میں بدل دیا ہے۔ سب سے بدترین تجاوزات لاہور میں ہیں جہاں سڑکوں پر گاڑی چلانا جبکہ بازاروں میں پیدل چلنا بھی محال ہے۔ لاہور میں 10فیصد سے بھی کم جبکہ پنجاب بھر میں بامشکل 20فیصد تجاوزات کا خاتمہ ممکن ہوسکا ہے۔ خود سے تجاوزات کا خاتمہ تو درکنار متعدد بار شکایات کے باوجود کاروائی نہیں کی جارہی۔ وزیراعلیٰ اور بورڈ آف ریونیو دونوں کے ”کے پی آئی“ میں لاہور مسلسل آخری نمبروں پر ہے۔

پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نئے نویلے بچے صرف ڈالا گردی اور فوٹو سیشن کرتے نظر آتے ہیں اگر تجاوزات ہٹانے کیلئے شکایت کریں تو پیرا والے کہتے ہیں کہ ہم ڈپٹی کمشنر کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، ایسی ہی صورت حال دیگر شہروں میں ہے جہاں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ تجاوزات کی صورت انکی حرام کمائی کا ذریعہ بند نہ ہو۔لاہور کی مختلف مارکیٹوں اور شاہراؤں پر عارضی تعمیرات اور تجاوزات قائم کروا کر ماہانہ پانچ سو کروڑ سے زائد صرف تجاوزات کی آمدنی ہے۔ اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی تجاوزات ماہانہ کروڑوں کی انڈسٹری ہے۔لاہور سمیت پنجاب بھر میں گاڑیوں کے شورومز، رپئیرنگ ورکشاپ اور ریسٹورنٹ مافیا نے ”پروٹیکشن منی“ دے کر سڑکوں پر قبضہ کررکھا ہے۔میں بارہا توجہ دلا چکا ہوں کہ (پیرا) PERA اسی صورت کامیاب ہوسکتی ہے اگر ”وزیراعلیٰ عوامی فیڈ بیک سیل” بنایا جائے جہاں سرکاری ملازمین کی طرف سے تجاوزات مافیا کا ساتھ دینے کی شکایات ڈائریکٹ سی ایم کو کرسکیں۔لاء انفورسمنٹ ایجنسیز، اینٹی کرپشن اور سی سی ڈی کو چاہئے کہ سرکاری بھتہ خوری اور بنا نمبر پلیٹ سرکاری ڈالہ گردی کو بھی لگام ڈالیں۔چیف سیکرٹری کو چاہئے کہ تجاوزات کی سرپرستی کرنے والے افسران کو نہ صرف عہدوں سے ہٹایا جائے بلکہ جیل بھیجا جائے۔

Shares: